Shuhda e Seyahat
شہدائے سیاحت
پانچ دن مسلسل بارش برستی رہی، جل تھل ایک ہو گیا۔ بڑے عرصے بعد بارش کا اتنا لمبا سپیل دیکھنے کو ملا، سردیوں کی دھیمی متواتر برستی بارش کبھی ہمارے لیے رومانویت کا استعارہ ہوا کرتی تھی۔ لانگ ڈرائیو کا مزہ ہم لانگ واک سے پورا کر لیتے تھے۔ بارش سے دل بھرتا ہی نہیں تھا۔ پِچ پِچ کرتی سڑکوں پر برساتی اوڑھے چلتے جانا، بارش اب بھی بری نہیں لگتی مگر اس مرتبہ پانچویں دن بھی جب اسی یخ بستہ رم جھم سے پالا پڑا تو خیال آیا کہ واقعی صحیح کہتے ہیں، کسی چیز کی بھی کثرت اس سے تنفر کا باعث بنتی ہے۔
انسانی مزاج ہی ایسا ہے کہ یکسانیت سے جلد اکتا جاتا ہے۔ اسے ہر دم نئے راستوں اور انجانی منزلوں کی تلاش رہتی ہے۔ مگر کیا کیجیئے مصلحانِ قوم کا جو اسے ڈرا دھمکا کر کھونٹے سے باندھے رکھنے پر ہی مُصِر ہیں، خیر ادھر تو بارش برستی رہی اور تھوڑے ہی فاصلے پر ایک بڑے حادثے کی کڑیاں ملتی گئیں، اور آناً فاناً ایک سانحہ برپا ہو گیا۔ جیسے ٹیسٹ میچ میں ایک سیشن پورے میچ کا پانسہ پلٹ دیتا ہے ایسے ہی برفانی طوفان کے ایک سپیل نے وہ منظر نامہ تخلیق کر دیا، جو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا۔
مقامی لوگ ایسے موسم کی تیاری کر کے رکھتے ہیں اور برفباری کے دوران بھی چوکس رہتے ہیں، جہاں سے برف ہٹانے کی ضرورت ہو ساتھ ساتھ ہٹاتے رہتے ہیں۔ سیاحوں کو ان باتوں کا کیا پتہ؟ انھوں نے تو برف کی آواز کانوں میں پڑتے ہی گاڑی نکالنی ہے، بچوں کو اندر ٹھونسنا ہے، اور نکل کھڑے ہونا ہے۔ جب تک گاڑی چلتی جائے گی پارٹی چلتی جائے گی۔ گاڑی رکی تو پھر بھی پارٹی نہیں رکے گی، سڑک پہ موج میلہ ہو گا، سیلفیاں کِھنچیں گی وڈیوز بنیں گی، اور گاڑی اگربرف میں دھنس گئی تو بھی کیا فرق پڑتا ہے برف کے لیے ہی تو آئے ہیں۔
کیا شہزادی قوم ہے ہماری! وہ رات بھاری پڑ گئی اور غیر متوقع برفانی طوفان نے آ لیا ورنہ یہ کہاں پکڑائی دینے والے تھے۔ اندازے کی غلطی سے مارے گئے اور خاکسار کے عاجزانہ خیال میں سوتے ہوئے بند گاڑی میں گیس بھر جانے سے بعینہٖ ویسی ہی موت کا شکار ہوئے جیسے گھروں میں اکثر وبیشتر سرد موسم میں پورے پورے خاندان کمرے میں گیس بھر جانے سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اب اس کی کیا توجیہ پیش کی جا سکتی ہے؟ کس کو مورد ِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
پچھلے ڈیڑھ دو عشروں سے شمالی پاکستان میں نئی سڑکیں بننے اور شہری علاقوں میں ایک نئی مڈل کلاس ابھرنے کے ساتھ سیاحتی کلچر بھی تیزی سے فروغ پانے لگا۔ موسمِ گرما کی چھٹیاں ہوں یا برفباری کے ایام، بے تحاشا گاڑیاں شمال کی طرف نکل کھڑی ہوتی ہیں۔ ایبٹ آباد سے ناران تک شاہراہِ ہزارہ پر جگہ جگہ گھنٹوں پھنسی ہوئی ٹریفک کے نظارے ہم ایک عرصے سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ ہمارے لیے تو یہ نظارے اکتاہٹ کا باعث بنتے ہیں، مگر ان سیاحوں سے پوچھا جائے تو انھیں اس ٹریفک جیم سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔
یہ ایک دفعہ ایبٹ آباد پہنچ جائیں تو جیسے جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ پھر بھلے روڈ بلاک ہو ان کی پارٹی جاری رہتی ہے۔ ان میں چھوٹے موٹے نوزائیدہ پنجابی صنعت کار اور نئے نئے کاروباری نوجوان جو پیسے اکٹھے کر کےجتھوں کی صورت میں لاہور ملتان راولپنڈی فیصل آباد گوجرانولہ سے نکل نکل کر اسی ایک شاہراہ پر جانب شمال رواں دواں ہوتےہیں۔ ان کا مطمحِِ نظر بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے، کہ اس ہاوہُو کا حصہ بن جائیں، اور جا بہ جا کھابے اُڑاتے جائیں۔
وادئ پشاور کے زندہ دل محنت کش اور کاروباری جو سیاحت کی اس دوڑ میں صنعتی پنجاب کے مقابلے میں قدرے تاخیر سے وارد ہوئے ہیں، مگر اب سب کو پیچھے چھوڑ دینے پر آمادہ ہیں۔ کاروباری حضرات پیسے کی فراوانی کے باوجود سادہ طرزِ زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ زیادہ دلچسپ البتہ محنت کشوں کا جگاڑ ہوتا ہے، جو پک اپ گاڑیوں میں دریاں بچھا، تکیے لگا، اوپر ترپال ڈال کر مع کھانے پکانے کے ساز وسامان کے سفر پر نکلتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ چار آنے کی چیز بھی راستے میں سے نہ لینی پڑے، خود پکائیں اور کہیں بھی بیٹھ کر پکنک منا لیں۔
ان کی اس واردات کو اب مقامی لوگ تاڑ گئے ہیں، اور انھیں زیادہ لفٹ نہیں کراتے۔ اس کے علاؤہ موٹر سائیکلوں والے ہیں جو رختِ سفر کمر پر لادے پنڈی سے نکلتے ہیں، اور ناران جا کر دم لیتے ہیں۔ کوئی انھیں روک کر دکھائے۔ بہتیرے حادثوں کا شکار بھی ہوتے ہیں، کھائیوں میں جا گرتے ہیں، بھاری گاڑیوں سے کچلے جاتے ہیں، مگر پھر بھی امڈتے چلے آتے ہیں۔ سیاحت کا سیزن بھی کچھ عرصہ پہلے تک صرف گرمیوں کی چھٹیوں تک ہی محدود تھا۔ معدودے چند ایلیٹ کلاس سنو فال دیکھنے چلی آتی تھی۔
اب صورتحال یکسر مختلف ہے، جس کے پاس بھی گاڑی ہے، اور جیب میں پیسے ہیں وہ برفباری سے کیوں نہ لطف اندوز ہو، مری چونکہ نزدیک پڑتا ہے اس لیے ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ اور پھر ہماری قوم! جس طرف رخ کر لے سب ادھر ہی چل پڑتے ہیں۔ جیسے اب حادثہ ہو گیا ہے، تو کیا الیکٹرانک اور کیا سوشل میڈیا سب نے ادھر ہی کیمرے سیدھے کر لیے ہیں۔ الزام تراشیوں کا طومار ہے۔ لکیر پیٹنے سے ہی سروکار ہے۔ ایک بار حادثہ ہو جائے اور میڈیا پر خبر زور پکڑ لے تو پھر ہم سب چاچے مامے بن کر آ کھڑے ہوتے ہیں۔
انتظامیہ کو رگیدتے ہیں، حکومت کو کوستے ہیں، اور وہی لاحاصل بحث کہ اگر یوں کر لیا جاتا، اگر وُوں کر لیا جاتا۔ گاڑیوں کو روک لیا جاتا۔ لوگوں کو ٹوک دیا جاتا۔ لوگوں کو کیا کہہ کر روکا جاتا کہ آگے برفباری ہو رہی ہے؟ وہ کہتے اسی کے لیے تو ہم آئے ہیں۔ سو سو نکتے نکالے جا رہے ہیں، مگر جن کی سمجھ میں آنا چاہئیے کیا ان کی سمجھ میں بھی آ رہا ہے؟ ہماری آپ کی سمجھ میں آ بھی گیا تو کیا فائدہ۔
البتہ جہاں تک ہماری پیاری قوم کا تعلق ہے، اس کی سمجھ میں پہلے کب یہ باتیں آئی ہیں جو اب آئیں گی۔ آخر میں شہیدانِ سیاحت کے لیے سلامِ عقیدت جنھوں نے آگے بڑھ کر بہادری سے ہنستے کھیلتے موت کو گلے لگا لیا۔