Hindustan Ke Ehle Nazar Ke Naam
ہندوستان کے اہلِ نظر کے نام
یہ خط آپ کو صرف یہ جتلانے کے لیے لکھا جا رہا ہے کہ ہم(یعنی ہم اور آپ) تاریخ کے اس موڑ پر آ پہنچے ہیں جہاں سے آگے رفتہ رفتہ ہم ایک دوسرے سے اوجھل ہوتے جائیں گے۔ پرانی باتیں، پرانے قصے، پرانی دوستیاں اور بچی کھچی سانجھ سب پیچھے رہ جائے گا۔ ہاں ایک چیز باقی رہے گی۔ آپس کی دشمنی۔ یہ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ ختم ہو بھی کیسے سکتی ہے۔۔ آخر ہمارے اجداد ایک ہیں، ہمارا خون ایک ہے، خون میں پائی جانے والی ہٹ ایک ہے۔ ہماری دشمنی شریکے کی دشمنی ہے۔ جیسے جائیداد کا بٹوارہ ہوتا ہے تو دشمنی کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ قدم قدم پر جھگڑا۔۔ تقسیم پر، حدبندی پر، اور پھر بڑا اپنے بڑے پن کا فائدہ اٹھا کر کوئی زیادتی کر دے تو چھوٹے کے دل میں ایسی کیل کھبتی ہے کہ کبھی نکل نہیں پاتی۔ ایک ہی گھر میں نفرت اور دشمنی کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے جیسے وہ گھر کبھی ایک تھا ہی نہیں۔ ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
یہ بحث اب بیکار ہے کہ تقسیم ناگزیر تھی یا نہیں۔ یہ ایک بیّن حقیقت ہے جسے ماننے کے سوا چارہ نہیں۔ ہمارے ہاں جو نابغے تقسیم کے خلاف موشگافیاں کرتے اور فلسفے بگھارتے تھے انھوں نے بھی آپ کی موجودہ حکومت اور میڈیا کی کرم فرمائی سے زبان دانتوں تلے دبا لی ہے۔ باقی بھی جن کو تھوڑی بہت غلط فہمی تھی اب رفع ہو گئی ہو گی۔ لیکن جہاں تک ہم جیسے روایت پسندوں کا تعلق ہے جو نہ تقسیم کے خلاف تھے اور نہ ہندوستان کے، انھیں خاص طور پر سخت مایوسی کا سامنا ہے۔
ہم جب پاکستان میں بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کو اپنی جڑیں پھیلاتے اور ریاست کے کرتا دھرتاؤں کو مصلحتاً اس کی آب ریزی کرتے دیکھتے تو ہندوستان کی صورت ِحال ہمیں نسبتاً بہتر نظر آتی۔ سوچنے اور سوال کرنے کی آزادی آپ کے ہاں زیادہ میسر تھی۔ فن کی قدر دانی بھی آپ کے معاشرے میں رچی بسی تھی۔ جن فنکاروں کو ہم یہاں گھاس نہ ڈالیں آپ انھیں سر آنکھوں پر بٹھائیں اور شہرت کے آسمان تک پہنچائیں۔ شاید اسی وجہ سے آپ کا عمومی انٹلیکچوئل لیول ہم سے بڑھ کر تھا۔۔ مگر کیا فائدہ ہوا؟ پہنچ گئے آپ بھی وہیں۔۔ لگ گئے آپ بھی ان جاہل اجڈ اور گنوار مذہب فروشوں کے نیچے! ہم تو پھر بھی شاطر نکلے۔ ان کی ہر بات بے چوں وچرا ماننے کے باوجود کبھی انھیں الیکشن نہ جتوایا۔
آپ نے تو دو تہائی اکثریت کے ساتھ انھیں اپنے سر پر لا بٹھایا۔ ہم جس راستے پر آگے تک جانے کے بعد واپسی کا سوچ رہے تھے آپ اسی راستے پر ہم سے بھی آگے نکلنے کے جنون میں مبتلا ہو گئے۔ ایک صدی کی ریاضت بھنگ ہوئی، بھاڑ میں گیا شائننگ انڈیا اور تیل لینے گیا سیکولرازم۔۔ سب کچھ آر ایس ایس کی چوکھٹ پر قربان ہوا۔۔ آپ کے ہاتھ کیا آیا؟ تنگ نظری! زباں بندی! ڈر۔۔ خوف!۔۔ اور ہم جو پلٹ رہے تھے ٹھٹھک کر رہ گئے۔۔ جہالت سے گُندھے خمیر ہیں ہمارے۔۔ ہم اپنے آر ایس ایس سے کیوں بگاڑ مول لیں؟
بچپن میں ہم آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس پر فرمائشی گانوں کے پروگرام سنا کرتے تھے۔" تعمیلِ ارشاد"نام تھا غالباً۔ بیچ بیچ میں پروپیگنڈا آئٹم بھی ہوتے جسے ہم سنا ان سنا کر دیتے لیکن اس بات کی خوب سمجھ آ تی کہ گانوں کی آڑ میں کانوں میں کچھ اور بھی انڈیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ پانچ سات منٹ کا یہ آئٹم ختم ہوتا اور لہکتا ہوا کوئی نغمہ ہوا کے دوش پر سماعتوں میں رس گھولتا تو ہمارے چہرے پھر سے کھل اٹھتے۔ لتا، رفیع، کشور، مکیش یوں سمجھیں موسیقی کے چار ستون تھے ہمارے لیے۔ جیسے کرشن چندر، عصمت چغتائی، منٹو اور بیدی اردو افسانے کے چار ستون ہیں۔ صبح سہ پہر اور رات تین اوقات میں فرمائشی پروگرام نشر ہوتا۔ پروپیگنڈا آئٹم اکثر کئی کئی مرتبہ دوہرائے جاتے۔ گانوں کے مزے میں اسے بھی گوارہ کر لیا جاتا۔
ریڈیو گھر میں چھوڑ کر جب عملی زندگی میں نکلے تو کیسٹ سے واسطہ پڑا۔ یہاں بھی ہندوستانی گانوں کا راج تھا۔ لوگوں کو کیسٹوں کے نمبر تک یاد ہوتے۔ آنے والے نمبر کا باقاعدہ انتظار کیا جاتا۔ بناکا گیت مالا کا ایک الگ سلسلہ تھا۔ چنیدہ گانے اور ساتھ امین سیانی کی زبان کا تڑکا۔۔ سماں بندھ جاتا۔ وی سی آر کا دور آیا تو سارا کاروبار ہی انڈین فلموں کا تھا۔ لوگ رات بھر کے لیے وہ سی آر کے ساتھ تین تین چار چار فلمیں بُک کرتے اور رتجگا کاٹ کر اوپر تلے ساری فلمیں دیکھ ڈالتے۔ امیتابھ بچن کو حادثہ پیش آیا تو پاکستان میں اس کے مداحوں کی جان پر بن آئی اور یہاں سے اس کی اتنی زیادہ عیادت کی گئی کہ وہتندرست ہوتے ہی پاکستان آنے کا وعدہ کر بیٹھا جسے بعد میں پورا نہ کر سکا۔
سرحدی علاقوں خاص کر لاہور میں دور درشن دیکھنے کے لیے لوگ اونچے اونچے اینٹینے لگاتے اور پھر انھیں سیٹ کرتے رہتے تاکہ انڈین فلم دیکھ سکیں۔ پاکستان شاید انڈین فلموں کی سب سے بڑی مارکیٹ تھی۔ اگرچہ بلیک مارکیٹ۔۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ایسے ہی جب جدید میڈیا کا دور آیا تو یہاں بھی انڈین چینل ہی آگے آگے تھے۔۔ مگر افسوس آپ اس بات کا ادراک نہ کر پائے کہ اتنی بڑی اور اہم مارکیٹ کو کیسے اپنے ساتھ جوڑ کر رکھنا ہے۔ آپ کے پالیسی سازوں نے سستے جذبات کی تسکین کو زیادہ اہم سمجھا۔
آئی پی ایل سے نکال دو، وہ دروازہ بند کروا دو، یہ ٹھپہ لگوا دو، وہ چینل گھما دو۔۔ اور نتیجہ کیا نکلا کہ آج یہاں کوئی آپ کا خریدار نہیں۔ نہ آپ کی فلم، نہ آپ کے چینل، نہ کارٹون۔ دل کے ٹکڑے بھی بغل بیچ لیے پھریں تو کوئی بھاؤ نہیں پوچھے گا۔ آپ سے جو امیدیں تھیں آپ ان سے بہت چھوٹے نکلے۔ آپ چاہتے تو تھوڑا اوپر اٹھ کر آسمان چھو سکتے تھے مگر آپ نے قعرِ مذلّت میں گرنا پسند کیا۔ آپ بڑے تھے مگر آپ نے خود کو خود ہی چھوٹا کر لیا۔ ہزار برس کا احساسِ کمتری طاقت اور اختیار کی ڈبل ڈوز کے نشے میں ڈوب کر ایسا ناچا کہ تاریخ شرما گئی۔