Tuesday, 21 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sardar Azhar Rehman
  4. Bazon Ki Halakat

Bazon Ki Halakat

بازوں کی ہلاکت

معمول کی خبریں، سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، ٹاک شوز، چائے کی پیالی میں طوفان، کون آ رہا ہے، کون جا رہا ہے، ان چیزوں میں نہ جانے کیوں اب دلچسپی باقی نہیں رہی۔ عمران خان نے کیا کہہ دیا، نوز شریف کیا سوچ رہا ہے، مولانا کس چکر میں ہیں، جماعتِ اسلامی کیا راگ الاپ رہی ہے، بلاول جو بھٹو اور زرداری کا نادر مرکب ہیں کونسی سیڑھی چڑھ رہے ہیں، ایم کیو ایم جو عدم اور وجود کے درمیان معلق ہے سودے بازی کی پرانی روایت سے کس قدر فائدہ اٹھا پائے گی۔

اے این پی ادھر اُدھر منہ مارنے کے بعد ایک بار پھر باچا خانی کے پرچار پر کیوں لوٹ آئی ہے اور پسِ پردہ ان سب کے راستے متعین کرنے والی اسٹیبلشمنٹ اب کیا چال چلنے والی ہے؟ اگر آپ چھ مہینے کے لیے چلّہ کاٹنے جنگل میں چلے جائیں تو واپسی پر ویسی ہی خبریں منتظر ہوں گی جیسی چھوڑ کر گئے تھے۔ یوں لگے گا جیسے وقت رکا ہوا ہے، خیر وقت بھلے رکا رہے دیہاڑیاں سب کی لگ رہی ہیں اس لیے سب خوش بھی ہیں اور مصروف بھی۔

تو ایسے میں مجبوراً خبریں سنتے ہوئے کبھی کوئی ایسی خبر بھی آ جاتی ہے کہ آپ کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور آپ پوری طرح متوجہ ہو جاتے ہیں۔ ضروری نہیں وہ کوئی بڑی خبر ہی ہو۔ وہ بظاہر سرسری سی خبر بھی ہو سکتی ہے جسے کوئی چینل دوہرانا بھی پسند نہ کرے۔ ایسی ہی ایک خبر گزشتہ رات نشر ہوئی۔ اگرچہ آج صبح بروز بدھ مشہور اور معروف چینلوں کی ویب سائٹس پر یہ خبر موجود نہیں۔ البتہ اخبار میں تین چار سطری یہ خبر موجود ہے۔

خبر یہ ہے کہ کراچی کسٹم کی تحویل میں ستر عدد باز پراسرار طور پر ہلاک ہو گئے جنھیں عندالطلب عدالت میں پیش کرنے کے لیے فریزر میں " محفوظ" کر لیا گیا۔ ایک باز کی قیمت بیس لاکھ کے لگ بھگ بتائی گئی۔ جبکہ اخباری خبر کے مطابق بازوں کی تعداد ایک سو دس تھی جنھیں ڈیڑھ دو سال قبل ایک بنگلے پر چھاپہ مار کر تحویل میں لیا گیا تھا۔ تین ملزم بھی گرفتار کیے گئے۔ بازوں کی ہلاکت مقدمے کی طوالت کے باعث ہوئی جنھیں اس دوران سپورٹس کمپلیکس میں رکھا گیا تھا۔

یہ چھوٹی سی خبر جس پر سو موٹو تو دور کی بات حکومت کا کوئی کار پرداز اس کا نوٹس تک نہیں لے گا، نہ کوئی اعلٰی افسر اس کی انکوائری کا حکم صادر کرے گا اور نہ کوئی پرائم ٹائم اینکر اپنا قیمتی ٹائم اس پر خرچ کرنا مناسب سمجھے گا دراصل ہماری قومی بے حسی، نالائقی اور کور ذوقی کی نہایت عمدہ مثال ہے۔ اسّی کی دہائی کے اواخر میں پشاور قیام کے دوران رانگ نمبر پر ایک شخص سے گپ شپ ہو گئی۔ وہ کچھ پُراسرار سا لگا جیسے کسی خفیہ گینگ کے لیے کام کرتا ہو۔ بعد میں وہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ثابت ہوئی۔

رفتہ رفتہ بے تکلفی ہوئی تو اس نے بتایا کہ وہ جن لوگوں کے لیے کام کرتا ہے وہ بنوں کے علاقے سے باز پکڑ یا پکڑوا کر عرب شہزادوں کو سپلائی کرتے ہیں۔ لاکھوں میں ایک پرندہ بکتا ہے۔ جو جگہ اس نے بتائی وہ مین یونیورسٹی روڈ پر ہماری دیکھی بھالی ایک وسیع و عریض کوٹھی تھی جس میں اکثر بھاری بھرکم مہنگی گاڑیاں آتی جاتی تھیں اور اسلحہ بردار محافظ چوکس رہتے تھے۔ ظاہر ہے اماراتی اور کویتی شہزادوں کا پیسہ انوالو تھا۔

تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ کاروبار ابھی تک جاری و ساری ہے۔ نہ شہزادوں کے شوق تبدیل ہوئے، نہ یہاں کے سپلائرز کی روزی روٹی کا سلسلہ منقطع ہوا اور نہ بازوں نے ہی اپنی نسل بڑھانا ترک کیا۔ البتہ پاکستانی سرکار کے اہلکاروں نے باہمی تعاون سے یکمشت سو باز ہلاک کر کے نہ صرف شہزادوں کو زور کا جھٹکا لگایا اور مقامی سمگلروں کی روزی پر لات ماری بلکہ بڑی حد تک بازوں کی نسل کُشی کا فریضہ بھی انجام دیا۔

ہمارے ہاں بے شمار المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یا تو قوانین بنانے والے جہالت کا ثبوت دیتے ہیں اور زمینی حقائق کے برخلاف قانون بنا ڈالتے ہیں یا پھر قوانین کا اطلاق جاہلوں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ بظاہر یہاں بھی ایسا ہی لگتا ہے جیسے پولیس والے یا کسٹم والے گاڑیاں پکڑتے ہیں تو انھیں کھلے آسمان تلے کھڑا کر کے چھوڑ دیتے ہیں، جہاں وہ برسوں پڑی گلتی سڑتی رہتی ہیں۔ ان کے مقدمات بھی عدالتوں میں زیرِ التوا ہوتے ہوں گے۔

باز بھی قانون کے مطابق پکڑ تو لیے گئے مگر خدا کی اس جیتی جاگتی مخلوق کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا، جو گاڑیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگیوں کی حفاظت کا خیال تو کسی کو نہ آیا، مگر ان کے بے جان جسموں کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے ضرور" محفوظ" کر لیا گیا۔ بے حسی اور سفّاکی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے؟ ڈیڑھ دو سال سے یہ سلسلہ چل رہا تھا۔ کسٹم کے افسران اور عدالت کے معزز جج صاحبان براہِ راست آگاہی رکھتے تھے۔

یہ وہی آفیسر ہوں گے جو تعلیم کے مختلف مدارج طے کر کے، قسما قسم کے امتحانات اور سکرین ٹسٹوں سے گذر کر اس منصب تک پہنچے ہوں گے۔ انھوں نے کورس کی کتابوں میں اقبال اور اسکے شاہین کو پڑھا ہوگا۔ ان کے اساتذہ نے شاہین کی خصوصیات پر روشنی بھی ڈالی ہو گی۔ انھوں نے چارٹوں پر شاہین کی تصویر بنا کر کمرۂ جماعت کو سجایا بھی ہو گا۔

ہو سکتا ہے ان کے اسکول یا اکیڈمی کا نام ہی شاہین یا ایگل سے منسوب ہو مگر عملی زندگی میں جب موقع آیا تو وہ اپنے دائرہ ِ اختیار میں اس خوبصورت اور شاندار پرندے کو پہچان ہی نہ پائے اور اسے بھی فولاد سے بنی بے جان گاڑیوں کی طرح مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ان افسروں کو تو لائن حاضر کرنا چاہیے۔ صوبائی اور وفاقی اربابِ اختیار سے گذارش ہے کہ اس معاملے پر انکوائری بٹھائیں۔ اس کے علاوہ تمام مقتدر قوتوں سے بھی درخواست ہے کہ قانون کے اس سقم کو دور کرنے کی کوشش کریں جس نے اس المیے کو جنم دیا۔

اس سے تو اچھا تھا یہ باز سمگل ہی ہو جاتے، زندہ تو رہتے۔ آپ نے سمگلنگ تو ضرور روکی مگر سو جیتے جاگتے شاندار پرندوں کا گلا گھونٹ دیا۔ دیکھتے ہیں محکمہ وائلڈ لائف جس کی شہرت اتنی بُری نہیں اس سلسلے میں کیسے بروئے کار آتا ہے اور ہمارا میڈیا جو قومی کرکٹرز کو شاہین کہتے نہیں تھکتا، ان شاہینوں کی المناک موت پر کہاں تک آواز اٹھاتا ہے، جب سے یہ خبر سنی ہے دل بوجھل ہے۔ ایک تو ان بے موت مارے جانے والے پرندوں کا افسوس مگر اس سے بڑھ کر اس بے حسی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جو ان سے روا رکھی گئی۔

Check Also

Yaseen Ansari, Azm o Hoslay Ki Dastan

By Azhar Hussain Azmi