Tuesday, 21 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sardar Azhar Rehman
  4. Aur Ab, Sinf e Aahan

Aur Ab, Sinf e Aahan

اور اب ، صنفِ آہن

راقم التحریر کی پیدائش واہ کینٹ کی ہے۔ وہیں ایف جی سکولوں میں تعلیم کے مدارج طے ہوئے۔ جی سیکٹر کے چھوٹے چھوٹے کوارٹر، بے حد کشادہ گلیاں، سکول جانا اور سکول سے واپس آنا، بہت بڑی اور منفرد جامع مسجد، مال روڈ کی ہلکی پھلکی گہما گہمی، دوسری طرف اسلم مارکیٹ میں ضرورت کی چیدہ چیدہ مگر عمدہ دکانیں۔ میٹرک تک تقریباً یہی ہماری دنیا تھی۔ شہر کیسا ہوتا ہے اور گنجان آبادی میں لوگ کیسے رہتے ہیں اس کا ہمیں کچھ اندازہ نہ تھا۔ پھر جب دنیا میں نکلے اور بستی بستی، پربت پربت گیت گاتے اور شہر شہر، نگر نگر جوتیاں چٹخاتے پھرے تو کچھ باتیں جیسے لاشعور میں بیٹھ گئیں۔

ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ آوارہ گردی کرتے ہوئے جب آپ گندی نالیوں، تنگ گلیوں، پھنسی ہوئی ٹریفک، پریشر ہارنوں کی دلفگار آوازوں، کوڑے کے ڈھیروں اور ابلتے گٹروں کے پانی میں سے ہوتے ہوئے یکدم کھلی ڈلی صاف ستھری سڑکوں، مرتب فٹ پاتھوں، سبزے کے قطعوں، درختوں کی قطاروں اور منظم ٹریفک میں جا نکلتے ہیں تو جان جاتے ہیں کہ آپ چھاؤنی پہنچ چکے ہیں۔ یہ بات ایک مؤقر زمینی حقیقت کے طور پر ہمارے دماغ میں نقش ہو گئی اور کبھی اس پر کوئی سوال نہیں اٹھا کہ جیسے یہ کائناتی سچائی ہو۔ اُلٹا فخر محسوس ہوتا کہ پیہم زوال پذیر سوسائٹی میں کوئی تو ایسا ادارہ ہےجو اپنی روایات اور سسٹم کو برقرار رکھے سربلند کھڑا ہے۔ ہم اس کا حصہ نہ سہی یہ تو ہمارا ہی حصہ ہے۔ فوج کے نظم وضبط نے ہمیشہ متاثر کیا، کبھی اس میں جھول نظر نہ آیا۔

کچھ ایسی ہی صورتحال ڈرامے کی بھی ہے۔ پی ٹی وی کا سنہری دور ہمارا بچپن کا زمانہ تھا۔ محدود وقت کی نشریات، ایک ہی چینل۔ پوری قوم کو پی ٹی وی نے باندھ رکھا تھا۔ خبر نامہ بھلے بورنگ ہوتا ہو گا مگرپرائم ٹائم کا ڈرامہ کسی سوغات سے کم نہ تھا۔ کیا ڈائریکٹرز تھے اور کیا رائٹر! آئی ایس پی آر کا تو پتہ نہیں یہ ادارہ کب قائم ہوا مگر فوج سے متعلق ٹی وی ڈرامے پہلے سے بن رہے تھے۔ ہاں البتہ جب یہ کام اس ادارے نے سنبھالا تو ان ڈراموں کا معیار بہت بلند ہو گیا اور ان میں عوامی دلچسپی کا گراف آسمان کو چھونے لگا۔ اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ معیار وقت کے ساتھ مزید بہتری کی طرف گامزن ہے۔

جس طرح فوج نے بطور ادارہ اپنے سسٹم کو ہمیشہ وقت کے تقاضوں کے مطابق بہتر سے بہترین کی طرف رواں دواں رکھا ہےویسے ہی آئی ایس پی آر کے پیش کردہ ڈرامے بھی اپنی نوعیت کے منفرد شاہکار قرار پاتے ہیں جن میں بدلتے وقت کا شعور بین السطور اجاگر ہوتا ہے۔ یہ حیرت اس لیے بھی دو چند ہو جاتی ہے کہ روایتی پاکستانی ڈرامہ تو اب مقدار کو معیار پر فوقیت دے چکا ہے۔ چینل بے شمار ہیں۔ ہر روز آٹھ گھنٹے کی نشریات کوئی آسان کام نہیں، آٹھ گھنٹے کی نشریات دو بار دوہرا کر چوبیس گھنٹے پورے کیے جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا، ٹی وی آٹھ گھنٹے ہی چلتا مگر (اے بسا آرزو کہ خاک شدہ) لہٰذا ڈائجسٹ رائٹروں کی بن آئی ہے۔ نہ ان کے پاس کہانیاں ختم ہوتی ہیں اور نہ ائر ٹائم کا پہیہ رکتا ہے۔

کہانیاں کیسے ختم ہوں۔ بھلا عورتوں کی روایتی باتیں اور خاندانی معاملات پر ان کی مُوشگافیاں بھی کبھی ختم ہوئی ہیں؟ گھر گھر یہ کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ ڈائجسٹ رائٹروں نے دھڑا دھڑ سکرپٹ لکھنے ہیں، کپڑے اداکار اپنے پہن آئیں گے، شوٹنگ کسی پر احسان چڑھا کر اس کے بنے سنورے گھر میں کر لی جائے گی، کیمرہ باہر لے جانے کی نوبت ہی شاید نہ آئے، ہوا بھی تو زیادہ سے زیادہ کسی ڈیپارٹمنٹل سٹور یا کسی شاہراہ پر گاڑی کے اندر کا ایک آدھ سین ہو جائے گا۔

لیجیے جناب! ڈرامہ تیار۔ اور ہاں! اداکاروں کا معاوضہ ادھار، نتیجہ یہ ہوا کہ ہم جیسوں نے ڈرامہ بینی سے کلیتاً کنارہ کشی اختیار کر لی۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے انڈین چینل بھی دستیاب نہ رہے۔ ٹاک شوز سے کانوں کو ہاتھ لگا کر کب کے توبہ کر چکےاور نیوز چینلز کی آواز بند کر کے صرف پٹیاں دیکھنے پر اکتفا کر لیا تو ایسے میں ایک لمبے وقفے کے بعد آئی ایس پی آر کے ایک نئے ڈرامےکی آمد کا اعلان ہوا۔ پرومو دیکھا توان سنہرے دنوں کی یاد پھرتازہ ہو گئی۔

عہدِ وفا نامی اس ڈرامے نے ہمیں ایک بار پھر ٹی وی سکرین سے جوڑ دیا۔ اس ڈرامے میں آئی ایس پی آر کا مخصوص رنگ بدرجۂ اتم موجود تھا۔ رائٹر اور ڈائریکٹر توظاہر ہے اسی مارکیٹ سے لیے ہوں گے مگر کہانی جاندار، مکالمے چست، سکرین پلے روزمرّہ زندگی سے قریب تر، انسانی جذبات کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی سچویشنز، اور سب سے بڑھ کرفلمی تقاضوں اور باکس آفس کی پیشہ ورانہ ڈیمانڈ کے عین مطابق، ایسی لو سٹوری جو عمر جنس اور طبقے سے ماورا ہر دیکھنے والے کے انٹلکچوئل لیول کو اپیل کرتی اور اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔

البتہ آخر میں یوں لگا جیسے ڈرامے کا لبِّ لباب یہ لو سٹوری ہی تھی۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ چاروں دوستوں نے جب معاشرے میں اپنا مقام بنا لیا تھا اور اختیارات حاصل کر لیے تھے تو انھیں مل کر سماج سدھارنےکا کوئی منصوبہ ترتیب دینا چاہئیے تھا، اور ہم اس کی توقع بھی لگائے بیٹھے تھے، مگر اس سے آگے شاید آئی ایس پی آر کے بھی پر جلتے تھے اس لیے ڈرامے کو وہیں ختم کر دیا گیا۔

اور اب نسبتاً کم وقفے کے بعد" صنفِ آہن" وہی معیار، اور وہی بدلتے وقت کے تقاضوں کا حد درجہ اہتمام، حساس انسانی جذبوں کی خوبصورت عکاسی، بلا کی فنی پختگی اور بالی ووڈ کے جذباتی حصار کے ٹکر کی سچوئیشنز۔ اب بات چلی ہے تو یہ بات بھی ہو ہی جائے کہ جیسے کوئی بھی اچھی فلم دیکھتے ہوئے قدم قدم پرڈائریکٹر اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے ایسے ہی ان ڈراموں میں آئی ایس پی آر کی مخصوص فنی بالیدگی کا پرلطف احساس ہمہ وقت حاوی رہتا ہے۔ بات حیرت کی ہو رہی تھی۔ حیرت اسی بات پرہے کہ جیسے کینٹونمنٹ کی صفائی ستھرائی اور فوج کا ڈسپلن اپنی روایت کے مطابق ویسے کا ویسا ہے، اسی طرح آئی ایس پی آر کے ڈراموں کا ذائقہ بھی ہو بہو ویسا ہی ہے جیسا آج سے پچیس تیس سال پہلے تھا۔

اب ظاہر ہے اس دوران بہت سے لوگ آ ئے بھی ہوں گے اور گئے بھی۔ آئی ایس پی آر کے ڈرامے تو چاول کا ایک دانہ ہیں۔ پاک فوج نے اپنے مربوط نظام کی وجہ سے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا ہے کامیابیوں کے جھنڈے ہی گاڑے ہیں۔ انڈسٹری ہو، فارمنگ ہو یا ہاؤسنگ۔ سنتے تو یہی آئے ہیں کہ قوم کی قسمت کا سکرپٹ بھی انھی ہاتھوں میں ہے۔ جو چاہیں لکھ دیں۔ مگر ٹریک ریکارڈ اس دعوے کی نفی کرتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہےکہ اتنا کامیاب ادارہ قوم کی تقدیر لکھنے میں ناکام ہو جائے لہٰذا ہمیں ان چہ میگوئییوں پر بالکل اعتبار نہیں۔ البتہ ہماری خواہش ضرور ہےکہ کاش!ایسا ہو سکے۔ کینٹونمنٹ کی حدود آگے بڑھ کر شہر کولپیٹ میں لے لیں اور آئی ایس پی آر، پی ٹی وی کا کنٹرول سنبھال لے۔

Check Also

The Girl With The Needle

By Mansoor Nadeem