Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Malik
  4. Zawal Ka Silsila

Zawal Ka Silsila

زوال کا سلسلہ

ہم مسائل کی بنیاد پر نہیں سوچتے، ٹامک ٹوئیاں مارنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ تاویلات در تاویلات ہمارا تاریخی مسئلہ ہے۔ یہی ہماری غلامی کی بڑی وجوہات میں سے تھا۔

ہم نے جس برائی کو بھی دیکھا بجائے اسکے سدباب کے، اسکے جواز تراشے۔ بہانے بنائے۔ نتیجہ یہ نکلا وہ برائی رواج بن گئی اور معاشرے کے بدترین بگاڑ کا سبب بنتی چلی گئی۔ ہم نہ بدلے ہم نے ہر ذلت، ہر جہالت، ہر زوال کے تاویلات پر مضمون باندھے۔ ہم نیچے ہی نیچے پاتال تک آن پہنچے۔ مگر ہمیں عقل نہیں، فہم نہیں، نیت نیچ ہے تو آج بھی ہم جواز در جواز تراش کر اپنے گناہوں کے بتوں کو سجا کر رکھتے ہیں۔

ہم نے اپنے علماء کی بد ترین اخلاقی رزدائل پر چشم پوشی کی، انکے جھوٹ میں گلاب ملا کر پیش کئے، جا بجا بارہا دیانت اور سچ کو روندا مگر اپنے مسلک، اپنے مذہب، اپنے فرقے، اپنے علماء کی پگڑی کو اونچا رکھا۔ وہ ذلتیں ہمارے گھروں تک پہنچ گئیں مگر ہم اپنی روش میں پابند رہے۔

بادشاہوں سے لیکر سیاسی رہنماؤں، جاگیرداروں سے لیکر پٹواریوں ڈی سی صاحب سے لیکر مجسٹریٹ اور تھانیدار سے لیکر وردی پوش جرنیل کے آگے ہم سرنگوں رہے۔ انہوں نے ہمیں جانور بنا ڈالا ہم نے خوشی خوشی غلامی اور مزدوری کو بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ عزت نفس، آزادی، وقار، حقائق کے بجائے ہم نے دو وقت کی بھکاریوں جیسی روزی روٹی کو ترجیح دی۔ رازق کے بجائے آڑھتیوں کے آگے ماتھا ٹیکا۔

یہ دیگ کے سینکڑوں دانوں میں سے فقط دو دانے ہیں۔ زوال کا سلسلہ لامتناہی ہوچکا۔

جانے کیسے ایک دھان پان سا شخص تاویلات کے چنگل سے آزاد ہوا اور اس نے اپنی پروفیشنل جرح کی اپروچ کو پسند کیا اور ملک بنا کر دے دیا۔ آج میں اگر کسی خیال کے جواز کے بجائے اسکی بنیاد پر سوال اٹھاتا ہوں تو اسی شخص کی دین ہے۔ آج اگر میں کسی ابھرتے ہوئے تاویلانہ معذرت خواہانہ مسلک کی نفی کرتا ہوں تو اسی اپروچ کی بنیاد پر کرتا ہوں۔ آج اگر میں سرکار کی طاقت پر سوال اٹھاتا ہوں اور میری رگوں میں زبردستی سرایت کئے گئے خیالات پر جرح کرتا ہوں تو وہی شخص میرا رہنما ہوتا ہے۔

لیکن ہم نے اس مفتے کے ملک کو اسی سلوک کے قابل سمجھا جس طرح کسی کی مانگی ہوئی چیز کے ساتھ ایک بھوکا ننگا بے لحاظ انسان کرتا ہے۔ ہم نے اوپر سے لیکر نیچے تک باچھوں سے رالیں ٹپکا ٹپکا کر بھنبھوڑ ڈالا۔ ہمیں علم تھا کہ ہم اپنے آپ کو ہی نوچ کھسوٹ رہے ہیں مگر ہم وہ بگڑی ہوئی اولاد ہیں جسے ڈنڈے سوٹے بھی دو منٹ کےلئے خاموش کراتے ہیں ہم پھر اسی خنزیرانہ صفات کے زیر اثر جہالت کے کیچڑ میں لوٹنیاں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔

جو جتنا اختیار کے قابل سمجھا گیا وہ اتنا ہی پاتال کی غلاظت میں ابلیسی عظمت کو چھو گیا۔ ہمارے پاس ساربان، راہ نمائی نہیں سازباز کرکے متعفن زیارتوں کے سودے کرتے رہے۔ ہمیں دو پائے سے چو پائے، چوپائے سے کیڑا اور کیڑے سے گندی نالی کا کیڑا تک بنا ڈالا مگر اوپر سے عظمت، مذہب کے تڑکے کا غلاف چڑھا دیا۔ ہم نے بدبو کو عطردان جان کر چاٹا اور چاٹے جا رہے۔

اس دوزخ کا اختتام کسی کو نظر نہیں آتا۔ اب ہم بطور معاشرہ اس قابل تک نہیں کہ ایک گلی سیدھی بنا سکیں، ایک نالی ٹھیک کر سکیں، ایک موٹر سائیکل یا گاڑی کسی نشیئی کی طرح نہیں بلکہ ایک نارمل انسان کی طرح چلا سکیں۔ سچ تو ہم نہ سن سکتے ہیں، نہ پڑھ سکتے ہیں، بولنا تو دور کی بات ہے۔

اس گندے غلیظ اور انتہائی مکروہ نالے کے آگے بندھ باندھنے والا اول تو کوئی ملتا نہیں ہے۔ جو کوشش کرتا ہے وہ خود اسی غلاظت کو اپنا پیرہن بنا کر پوتر ہو جانا چاہتا ہے۔ اب اس کا کیا حل ہے؟

اسکا حل کم از کم بھی مزید تاویلات نہیں ہیں۔

ہمیں جرح کرنا ہوگی اور جرح کو برداشت کرنا ہوگا۔۔ اس عقلی، فکری، نظریاتی، سماجی اور جغرافیائی جرح میں ہمارے جعلی مقدسات کے ڈھکوسلے زمین بوس ہو سکتے ہیں۔ گنڈیری کی طرح چوسی ہوئی باتوں، کلیشوں اور نعروں کے رس زہریلے ہو سکتے ہیں۔ ہمارے مذہب کی شکل ہمارے چہروں پر ثبت پھٹکار کی طرح ہم پر واضح ہو سکتی ہے۔ ہمارے نظریات و روایات کا مکمل دھڑن تختہ ہوسکتا ہے۔ ملک، صوبے سرحدیں سب کچھ الٹ پلٹ سکتا ہے۔

یہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔

یہ سب کچھ ہوگا۔

یہ سب کچھ ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔

میں اور آپ اسکے نتائج سے بھی واقف نہیں۔ ہمیں نہیں علم اس سفاک جرح کے دوران ہمیں ماہر جراح ملیں گے یا اتائیوں کے ہاتھ میں استرا آ جائے گا۔ مگر تاریخ کا یہ سفر خدا نے ہر قوم کے لئے لکھ دیا ہے۔

اگر میں اور آپ کچھ کر سکتے ہیں تو بہترین جراح بننے کی کوشش کریں۔ اگر نہیں بن سکتے تو وہ جو بھی ہو، یا جتنے بھی ہوں اسکی سپورٹ کریں تاکہ آنے والے وقت میں اپنی نسلوں کے لئے بہتر معاشرے بنانے کی حقیقت پسندانہ کوشش کر سکیں۔

لاوہ تو بہے گا اور جلنا ہمارا مقدر ہے۔ جتنا بلندی کی طرف جا سکتے ہیں جائیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam