Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Malik
  4. Sheikh Mujeeb Ke 6 Nuqaat

Sheikh Mujeeb Ke 6 Nuqaat

شیخ مجیب کے 6 نکات

شیخ مجیب الرحمٰن کو تن تنہا پاکستان کے دو لخت ہونے کے ذمہ دار قرار دینے سے قبل یہ سوچ لیں کہ بنگالی رہنما نے 1966 میں چھ نکات کا باقاعدہ اعلان لاہور میں کیا۔ اسکے بعد پانچ برس بیتے اگر مغربی پاکستان کی اشرافیہ سنجیدہ ہوتی تو با آسانی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا جا سکتا تھا۔ اشرافیہ سے یہاں مراد اس وقت کی حکمران فوجی اشرافیہ ہے۔

سیاسی اشرافیہ حسبِ روایت اس وقت بھی بوٹوں کے زیر نگیں تھی۔ ہوا یہ کہ اس دوران اگرتلہ سازش نکل آئی، مجیب بات سننا نہیں چاہتا، بھارت اسکے ساتھ ہے، غدار ہے وغیرہ وغیرہ کے روایتی راگ خاکی رنگ میں بجنے لگے۔ مجیب کی شخصی کوتاہیاں اور کجیاں اپنی جگہ مگر مطالبات کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا۔ سب نہیں کچھ مطالبات تو قابل قبول لازمی تھے۔ باقیوں میں ترامیم ممکن تھیں۔

چھ نکات کا جائزہ لیں تو مجیب الرحمٰن واضح طور پر پاکستان کو دو ریاستی فیڈریشن کی طرح برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ بنگلہ دیش بطور الگ ملک انکی ترجیح کیا مطالبات میں اسکا ذکر تک نہیں۔

چھ نکات کا خلاصہ یہ ہے

1۔ پاکستان کو قرارداد لاہور کے مطابق چلایا جائے۔ پارلیمنٹری طرز حکومت ہو اور قانون ساز ادارے دونوں یونٹس کے نمائندوں پر مشتمل ہوں۔

2۔ وفاقی حکومت کے پاس صرف دفاع اور خارجہ امور ہوں باقی معاملات میں فیڈریشن کی ریاستیں خود مختار ہوں۔

3۔ دو علیحدہ مگر آسانی سے کنورٹ ایبل کرنسیاں دونوں ونگز کے لئے ہونی چاہئیں اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ہر لحاظ سے کوشش کی جائے کہ سرمایہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کا رخ نہ کرے۔ ریزرو بینک اور مانٹیری پالیسی بھی دونوں حصوں کے لئے الگ الگ ہونی چاہئے۔

4۔ ٹیکس لگانے کی اتھارٹی بھی فیڈریشن کے دونوں ونگز کی اپنی صوابدید ہو اور وفاقی حکومت کو محصولات میں سے ایک مخصوص حصہ دونوں حصے ادا کریں۔

5۔ فارن ریزرو کے دو الگ الگ ایکسچینج ہوں مگر وفاق کے لئے الگ سے ایک حصہ مختص کیا جائے۔ مقامی اشیاء بغیر کسی ٹیکس کے دونوں ونگز میں حرکت کر سکیں اور آئین اس بات کی اجازت دے کہ یونٹس بیرونی ممالک سے تجارتی روابط قائم کر سکیں۔

6۔ مشرقی پاکستان کی الگ فوج یا پیرا ملٹری فورس ہونی چاہیے اور نیوی کا ہیڈ کوارٹر مشرقی پاکستان میں ہونا چاہیے۔

یہ سارا معاشی ماڈل امریکن ریاستوں کے اسٹرکچر پر استوار کیا گیا تھا۔

فیصلہ آپ کریں کہ کتنے مطالبات تسلیم کئے جانے کے قابل تھے اور کتنے نہیں؟ کس مطالبے پر مغربی پاکستان کے ٹھاکر زیادہ چیں بہ چیں ہوئے ہونگے؟

ٹھیک ہے کہ یہ سب Hindsight میں ہے اور پیچھے مڑ کر تاریخ کی درستگی دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ مگر سوچنے میں ہرج کیا ہے؟ یہ بھی تسلیم کہ مغربی پاکستان والے بنگالیوں کو نیچ سمجھتے تھے تو علیحدگی تو شاید ہونی تھی مگر ممکن تھا کچھ حقوق کا تحفظ اس مفروضے کو منہدم کر دیتا؟

یہ بھی غور کریں کہ فوجی تسلط سے آزاد ہونے والا بنگلہ دیش 1975 س 1991 تک فوجی اقتدار میں رہا۔ ملک کے بانی مجیب کو اسکے خاندان سمیت قتل کر دیا گیا اور ایک وقت میں پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں پر ضیاء نام کی فوجیوں کی حکمرانی تھی۔ آخر میں دونوں ضیاء قتل کر دیئے گئے۔ مزید یاد رکھیں کہ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کی افواج ایک ہی برٹش ٹکسال سے ڈھل کر نکلیں۔ دو میں وہ اقتدار کے لئے سرگرم خون آشام چڑیلیں بن گئیں تو تیسرے میں پر امن جمہوری فاختہ۔ ایسا کیوں ہوا؟

مسئلہ کیا ہے؟ مسلہ شاید مسیحا بننے کا جنون ہے یا شاید کچھ اور؟

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar