Palmistry
پامسٹری
کچھ عرصہ قبل پامسٹری و دست شناسی کے حوالے سے اپنی دیرینہ دلچسپی اور مشاہدے کا اظہار کیا تھا تو کئی دوستوں نے استفسار کیا کہ کیا آپ باقاعدہ ہاتھ دیکھتے ہیں۔ جواباً عرض کیا کہ ہاتھ دیکھنے اور دست شناسی سے متعلق کتب کا مطالعہ تو اوائل عمری سے جاری ہے، ہاتھ دیکھنے کا بھی تجربہ رہا مگر یوں پروفیشنل پامسٹوں کی طرح تو ہاتھ نہیں دیکھے نہ دکھائے۔ مگر جس طرح کا فراڈ پاکستان میں جاری ہے میرا ارادہ بننا شروع ہوگیا ہے۔
میری کچھ ہینڈ ریڈنگز موجود ہیں جو میں نے Reddit اور فیس بک پر تجرباتی طور پر کیں۔ یہ سینکڑوں ریڈنگز میں سے چند ریڈنگز ہیں جو یورپین، امریکن، پاکستان، بھارتی اور افریقین ہاتھوں کے متعلق کی گئیں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ریڈنگز میں کتنا فرق آتا ہے۔ آپ نتائج دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے روایتی "پیرانہ و صوفیانہ" چالاکی اور فنکاریوں سے کام لینے کے بجائے واضح نتائج بتائے ہیں۔ گول مول لفاظی نہیں کی۔
اکثر و بیشتر جب میں پامسٹری کے گروپس، یو ٹیوب و فیس بک ویڈیوز پر پاکستانی، بھارتی اور مغربی پامسٹری کی ویڈیوز دیکھتا ہوں تو خوب کڑھتا ہوں۔ جو احمقانہ باتیں ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں انکا مستند پامسٹری کی حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
سب سے پہلے تو یہ بات پلے باندھ لینی چاہیئے کہ علم تو درست ہوسکتا ہے لیکن یہ لازمی نہیں کہ اسکو استعمال کرنے والے میں اتنی اہلیت ہو کہ وہ درست انداز میں ہاتھ پڑھ سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے جانے پہچانے علوم بھی سو فیصد درست پیشگوئی کا دعویٰ نہیں کرتے تو بھلا occult کی کیا مجال جو بشمول دست شناسی کے مکمل درستگی کا پرچار کرتے پھریں۔ دست شناسی کی اپنی حدود ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ پامسٹری ایک عملی علم جس کی بنیاد دیگر علوم کی طرح ثابت شدہ patterns پر ہے۔
سکیٹزوفرینیا کے مریضوں اور قاتلوں کے ہاتھوں پر کچھ تحقیقات مخصوص علامات کے پیٹرنز کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسی طرح کے کئی دیگر لکیروں اور علامات کے پیٹرنز ہیں جنہیں جدید سائنس تو تسلیم نہیں کرتی مگر صدیوں سے انکے نتائج سو فیصد نہ سہی مگر اکثریت میں درست ثابت ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ پامسٹری پر بحث بہت طویل ہو سکتی ہے اس لئے اسکی تاریخ پر پھر کبھی بات کی جائے گی۔
ہاتھ آپ کے ہیں لکیریں آپ کی ہیں نہ تو علم نجوم کی طرح بیرون دنیا میں سرگرداں سیاروں کے اثرات کا چکر ہے نہ 12 بروج اور گھروں کے نحس اور مبارک ہونے کا قصہ۔ جو ہے آپ کے اپنے جسم کا حصہ ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اگر لکیروں کو دیکھ دیکھ کر ہی زندگی گزاری جائے تو کیسی مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہو جائے۔ ذہن نشین رہے کہ لکیریں اور ہاتھوں پر بننے والی علامات و نشانات راستے کی وضاحت کے لئے ہیں نہ کہ ان پر اندھا دھند ایمان لا کر ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ ہی جایا جائے۔
اب کچھ چغد پن میں گندھے مغالطوں کا ذکر ہو جائے۔
مثلاً ہاتھ پر اگر زندگی، دل، دماغ اور قسمت کی لکیروں کے ملاپ سے "ایم M" کا سائن بننے کو پتہ نہیں کیا محیر العقول واقعہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسکی کوئی اہمیت نہیں نہ کوئی خاصیت ہے۔ دوسری بات جو اکثر ہم بچپن سے کرتے آ رہے ہیں کہ دونوں ہاتھ ملا کر حرف "ب" بناتے تھے، اسکی بھی پامسٹری میں کوئی significance نہیں۔ ایک اور حماقت کو جو کہ ماضی کی ماند شدہ کہانیوں کی طرح ہے کہ "کراس" کا نشان اگر دل اور دماغ کی لکیروں کے درمیان بنے تو ایسا انسان صوفیانہ مزاج رکھتا ہے اور اسے "صوفیانہ کراس" کہا جاتا ہے۔ سینکڑوں ہاتھ دیکھے ایسے کراس والے کسی انسان کو صوفی ولی نہیں پایا۔ سادھ گرو کے ہاتھ پر ایسا کوئی سائن نہیں۔ پاکستان کے کسی نام نہاد صوفی کے ہاتھ پر ایسا کوئی نشان نہیں۔ ہاں عام افراد کے ہاتھ پر مختلف لکیروں کے ٹکرانے سے کراس نما نشان بن جاتا ہے جس کے معنی مختلف ہیں۔
مزید برآں انڈین دست شناسوں نے اپنی جاہلیت کے رنگ بھی اس فن میں انڈیل دئیے ہیں۔ جیسا کہ ایک شوشا Money triangle کا چھوڑا جاتا ہے جو کہ قسمت اور صحت یا بزنس کی لکیر سے مل کر بنتا ہے۔ یہ نام نہاد money triangle نہ ایلون مسک کے ہاتھ پر ہے نہ بل گیٹس اور مارک زکربرگ کے ہاتھ پر۔۔ ہاں ہر مڈل کلاس کے ہاتھ پر ایسے سائن مل جائیں گے جن کی اہمیت بے انتہا کم ہے۔
دو قسمت کی لکیروں کا بہت شور ہوتا ہے کہ دو ذرائع آمدن ہوتے ہیں اور ہر معاملے میں فتح ہوتی ہے۔ ایسا کچھ نہیں۔ ہاتھ کی ساخت کے اعتبار سے اس بات کا فیصلہ ہوتا ہے کہ دو قسمت کی لکیروں کو کیسے پڑھا جائے مگر عمومی طور پر یہ کوئی بہت بڑی امارت کی نشانی نہیں۔ آپ خود جا کر بڑے بڑے ارب پتیوں کے ہاتھوں کی تصاویر دیکھ لیں شاید ہی کسی کے ہاتھ درجنوں قسمت کی لکیریں ہونگی حالانکہ وہ سرمایہ کاری اور مختلف کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے درجنوں ذرائع آمدن رکھتے ہیں۔
ایک اور ڈراوا یہ دیا جاتا ہے کہ زندگی کی لکیر چھوٹی ہوگی تو جوانی میں وفات ہوگی یا لکیر ٹوٹ جائے تو بہت بڑا حادثہ پیش آئے گا۔ شاہ رخ خان کی زندگی کی لکیر ٹوٹ کر آگے چلتی ہے مگر انہیں کوئی جان لیوا حادثہ پیش نہیں آیا۔ کئی لوگوں کے ہاتھوں پر مختصر لکیر ہوتی ہے مگر وہ 80 برس تک جیتے رہتے ہیں۔ اس میں چند باریک سے پہلو ہیں جو پھر کبھی ڈسکس کروں گا مگر عمر کی پیشگوئی کرنا آج کل کے دور میں حماقت سے کم نہیں۔
ابھی تک ہمارے پامسٹ پرانی دنیا میں جی رہے ہیں کہ عورتوں کا بائیں اور مرد کا دائیں ہاتھ دیکھنا چاہئے۔ حالانکہ جو جس ہاتھ سے لکھتا ہو کام کرتا ہو اس ہاتھ کو دیکھنا زیادہ بہتر نہیں ہوگا؟ بلکہ دونوں ہاتھ دیکھنے چاہئے انسان اکثر کام دونوں ہاتھوں سے کرتا ہے۔
شادی کے حوالے سے بھی عجیب ہی دنیا بسائی ہوئی ہے کہ شادی کی جتنی لکیریں ہونگی اتنی شادیاں ہونگی یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ شادی کی لکیر تو شیخ رشید کے ہاتھ پر بھی ہے۔