Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Malik
  4. Pakistani Log

Pakistani Log

پاکستانی لوگ

بندہ کیا کہے کہ یہ قوم کیا بلا ہے جو ماواں سنجیاں اور ٹھنڈیاں چھاواں کے نعرے لگاتی ہے مگر اپنی ماں، بہن کے سامنے بھی ماں بہن کی گالی نکالنے سے گریز نہیں کرتی۔ جو قوم صفائی نصف ایمان والے دین کو مانتی ہو مگر خالی دیوار دیکھ کر رفع حاجت کے لئے مچل جاتی ہو۔ پاؤں کعبے کی جانب نہ ہوں مگر گوشت پاؤں سے کاٹتی ہو اور بیکریوں میں آٹا بھی پاؤں شریف سے گوندھتی ہو۔ ایسے لاتعداد کارنامے گنوائے جا سکتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسی اچھی عادات بھی ہمارے اندر راسخ ہیں جو ہم سے اخلاقی طور پر برتر اقوام میں بھی نہیں ہیں۔

انگلینڈ میں قیام کے دوران میں نے بارہا دیکھا کہ ٹیوب یا بس بھری ہوئی ہے کوئی بوڑھا یا بوڑھی اندر داخل ہوتے ہیں اور کوئی نہ کوئی پاکستانی فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کافر یہودی اور ملحد بڈھے کو اپنی سیٹ پیش کر دیتا ہے۔ مجال ہے کسی گورے کو یہ توفیق ہو۔ گورا تو دور کی بات ہمارے کلچری بھائی انڈین، بنگالی بھی اس کام میں ہم سے میلوں دور ہیں۔ بزرگوں کی عزت ہمارے خون میں شامل ہے۔ یہ بات کتنی حیران کن لگتی ہے۔ لیکن کیونکہ یہ اچھی بات نسل در نسل ہمارے اندر چلی آ رہی ہے۔ اس لیے ہمیں یہ کرتے ہوئے ذرا دقت نہیں ہوتی۔

آج بھی ہم اتنے نرم دل ہیں کہ کوئی جعلی معذور فقیر بھی اللہ اور اسکے رسول کے نام پر پیسے مانگے تو جانتے بوجھتے اسے پکڑا دیتے ہیں۔ اس طرز عمل میں خامی بھی ہے مگر ہمارے دلوں میں نرمی ہے۔ آج بھی ہمارے دل اتنے کشادہ ہیں کہ دو اجنبی ملتے ہیں اور چند منٹوں میں بلا تکلف قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں، آپس میں کھانا شئیر کر رہے ہوتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے پاکستانیوں کو دو چیزیں ہمیشہ جوڑے رکھتی ہیں۔ ایک ہمارے مسائل اور اس سے جڑی سیاست اور دوسرا کرکٹ ٹیم، جب بھی ان دونوں کا ذکر ہوا دوسرا بندہ "واؤو" ہوا۔

مذہبی لوگوں کی ہزار باتوں سے میں چڑتا ہوں، مجھے انکی بہت سی باتیں غیر اسلامی لگتی ہیں۔ جن کا انھیں احساس ہی نہیں مگر اکثر باریش حضرات خوبصورت محبت بھرا سلام ضرور پیش کرتے ہیں۔ چاہے آپ سے واقف ہوں یا نہ ہوں اور یہ ٹرینڈ میں نے گوروں کے ساتھ بھی دیکھا اور خاص کر نو مسلم لوگ دوسروں کو بڑھ چڑھ کر السلام علیکم کہتے ہیں۔ عورتوں سے ہمارے رویے گھن زدہ اور مریضانہ ہیں۔ بوتھیاں لٹکا لٹکا کر اور رالیں بہا بہا کر ہم انھیں تاڑتے ہیں مگر چاہے پس پردہ جذبات جو بھی ہوں، کہیں رش ہو، تو انھیں پہلے جگہ دینے کی کوشش کرینگے، بارش ہو، سامان اٹھانا ہو کوئی مدد کرنی ہو تو ہم مدد کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ باہر ممالک میں کیونکہ عورتیں اور مرد برابر سمجھے جاتے ہیں اس لئے یہ خاص ٹریٹ منٹ نہیں کیا جاتا۔

ہمارے بچے اور نوجوانوں کو جنھیں ہم لاکھ برا کہیں مگر میرے تجربے کے مطابق یہ کم از کم گوروں اور عربیوں کے بچوں سے کہیں زیادہ تمیز دار، سمجھ دار ہوتے ہیں۔ اپنے والدین کی تو عزت و احترام کرتے ہی ہیں رشتے داروں، ہمسایوں تک کی عزت کرتے ہیں حالانکہ دنیا میں بچوں اور ٹین ایجرز کے انداز دیکھیں تو لگ پتہ جائے گا۔

یہ اور اس جیسی کئی دیگر جینٹک اچھائیاں بن چکی ہیں۔ جنھیں ہمارے اندر سے نکلتے نکلتے دو تین نسلیں لگ جائیں گی۔ اللہ کرے یہ عادات برقرار رہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری جینٹک برائیاں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور انکی پروا بھی کوئی نہیں کرتا۔ انکو نکالتے نکالتے کتنی صدیاں لگیں گی؟

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad