Mian Muhammad Nawaz Sharif Ke Haath Ka Tajzia Aur Siyasi Mustaqbil
میاں محمد نواز شریف کے ہاتھ کا تجزیہ اور سیاسی مستقبل
حسب وعدہ عمران خان کی ہینڈ ریڈنگ کے بعد نواز شریف کے ہاتھ کا تجزیہ دست شناسی کی رو سے حاضر ہے۔ کسی قسم کی سیاسی عصبیت سے ہر ممکن گریز کیا گیا ہے۔ پچھلی تحریر پر پامسٹری پر سوالات نما شبہات اٹھائے گئے۔ مثلاً جن کے ہاتھ نہیں ہوتے انکی بھی قسمت ہوتی ہے۔ اللہ کے علاوہ مستقبل کا حال کوئی نہیں بتا سکتا۔ نجومی کو ہاتھ دکھانا غیر اسلامی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اول یہ کہ بہت ہی سادہ سی بات ہے کہ جن کے ہاتھ نہیں ہوتے انکے ہاتھ کا پڑھا ہی نہیں جا سکتا۔ بات ختم! اس میں دست شناسی کی کمزوری کیسے ہوگئی؟ بالکل ہی لایعنی سی بات ہے۔ مقدر اللہ کی دین ہے ہم انسان اور دست شناس کے اگر ذرائع میسر ہوں اور کچھ علم ہو تو اس میں کچھ چیزیں پڑھ سکتے ہیں۔ پامسٹ نے مقدر نہیں بنانا ہوتا نہ وہ اچھا برا نصیب کرنے پر قادر ہے۔ پامسٹری علامتوں کی زبان کو پڑھنے اور سمجھنے کا علم ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک ان پڑھ کے لئے اردو انگلش کے الفاظ کیڑے مکوڑے اور بے معنی ہیں مگر ایک تعلیم یافتہ انسان ان سے معنی کشید کر لیتا ہے۔ تھوڑا اپنے ذہن پر زور دے دیا کریں۔
دوم اللہ حتمی اور مکمل علم کا مالک ہے۔ انسانوں کو اس نے اپنے علم سے کچھ ودیعت کر رکھا ہے۔ پیغمبروں کی زندگی گواہ ہے کہ اللہ نے انسان کو مستقبل شناسی کا علم دیا ہے۔ خضرؑ کی کہانی سے ظاہر ہے کہ مستند شدہ نبی نہ بھی ہو تو اللہ جیسے چاہے اپنا علم عطا کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے پامسٹری اتنا پختہ یا خدائی علم نہیں سمجھا جاتا مگر تجربہ سے ثابت ہے کہ کچھ ہاتھ کی لکیروں اور علامات سے ہمیشہ ایک جیسے نتائج نکلتے ہیں۔ ناخنوں سے بیماری اور فنگر پرنٹس سے شناخت تو سب کو علم ہی ہے۔ اس پر تفصیل سے کسی دن بیان کر دیا جائے گا۔ پامسٹری کو تو چھوڑ دیں ہم ہرلمحے مستقبل کے متعلق فیصلے کر رہے ہوتے ہیں چاہے وہ اگلا لمحہ ہو یا کسی قسم کا میڈیکل ٹیسٹ ہو، موسم کی پیش گوئی ہو، ٹریڈنگ ہو، یا کاروباری پروجیکشن ہو۔ ان گنت مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اس پوسٹ کا یہ موضوع نہیں۔
سوم یہ بات سرے سے ہی غلط ہے کہ نجومی ہاتھ دیکھتا ہے۔ پامسٹ ہاتھ دیکھتا ہے نجومی زائچہ بنا کر دیکھتا ہے۔ دوسری بات یہ ذہن نشین رہے کہ قرآن مجید میں کہانت پر وعید آئی ہے۔ کہانت شیطانی علم ہے جس میں شیاطین کی مدد لی جاتی ہے۔ جادو اور سفلی علوم اس ضمن میں آتے ہیں۔ علم نجوم بھی اس لحاظ سے ممنوع نہیں کہ کم از کم چاند کے اثرات تو دنیا پر تسلیم شدہ امر ہے۔ باقی وضاحت علم نجوم والے ہی کر سکتے ہیں۔
نواز شریف صاحب کے ہاتھ پر نسبتاً کم ہاتھوں پر نقش علامت موجود ہے کہ تینوں اہم ترین لکیریوں، زندگی، دل اور دماغ کا آغاز ایک ہی جگہ سے ہوتا ہے۔ یہ جذبات میں اچانک شدت اور اشتعال آنے کی علامت ہے۔ نیز ایسا شخص زندگی میں بارہا حادثات سے دوچار ہوتا ہے۔ خوشی کے موقع پر غم اور غم کے موقع پر خوشی کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اسکے لیے کبھی دل دماغ پر تو کبھی دماغ دل پر غالب آتا رہتا ہے۔ جذباتی استحکام کی کمی بھی اس سے ظاہر ہوتی ہے۔ گو اچھے ہاتھ کی ساخت پر یہ علامت مثبت بھی ہو جاتی ہے کہ منفی خصوصیات کے ساتھ ساتھ عمدہ دل و دماغ کے استعمال کا امتزاج بھی ایسے شخص میں ہوگا۔
نواز شریف چونکہ سیاست دان رہے ہیں تو انکی زندگی میں سیاسی حادثات نمایاں ہیں۔ تین بار حکومت سے برطرف ہوچکے ہیں۔ لیکن معروف اور قدیم مغربی دست شناس ایسی علامت والے شخص کی حادثاتی وفات کی پیشگوئی بھی کرتے رہے ہیں۔ میں نے عموماً دیکھا ہے کہ حادثاتی اموات تو ایسی علامت والوں کی انتہائی کم ہوتی ہے اور وہ بھی اگر دیگر منفی علامات اس وقت موجود ہوں تب۔ حادثے کی بات کو مثال سے سمجھیں کہ آصف علی زرداری نے بطور صدر کسی سیاسی حادثے کے بغیر پانچ برس مکمل کئے۔
نواز شریف صاحب کے زندگی کی لکیر کے اردگرد گھیرا بناتی ماؤنٹ آف وینس یعنی زہرہ کے ابھار کا وسیع و عریض میدان ہے۔ اتنے گھیراؤ کے حامل وینس کے مالک افراد خوش مزاج، وسیع القلب، بڑا حلقہ یاراں اور جنس مخالف سے تعلقات کی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ نواز شریف صاحب یقیناً رنگین مزاج اور دلنواز شخصیت ہیں اور ایسے افراد کے لئے کثرت ازواج کی ترکیب استعمال کی جا سکتی ہے گو شادی تو ایک ہی ہے مگر جنس مخالف سے دلچسپی میں کوئی دو رائے نہیں۔ طبعیت میں سستی اور چل موڈ chill mode کی نشاندہی بھی اس سے ہوتی ہے۔
1999 میں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی اور اس کے بعد سے انکی luck line کی تنزلی کی نشان دہی کر رہا ہے۔ دماغ کی لکیر سے ایک لکیر قسمت کی لکیر کو کاٹ دیتی ہے۔ اس وقت انکی عمر 50-51 تھی۔ کچھ برس تک انکی قسمت کی لکیر بالکل معدوم رہی پھر 54-55 سے ہلکا ہلکا ابھار شروع ہوتا ہے مگر آگے چل کر پھر قسمت کی لکیر منتشر ہوجاتی ہے۔ انکا دوبارہ 2013 میں اقتدار میں آنا قسمت کی لکیر کی وجہ سے نہیں بلکہ آگے چل کر اسکی وجہ بیان کی جائے گی۔
موجودہ قسمت کی لکیر کو ظاہر کر رہا ہے۔ کسی حد تک لکیر مشتری کے ابھار کی طرف تو مناسب ہے مگر Saturn کی طرف جانی والی لکیریں Scattered ہیں۔
پامسٹری کے اصولوں کے تحت نواز شریف کی کامیابیوں کی اصل وجہ ہے۔ Jupiter پر اسٹار یا ستارہ نما نشان عظیم الشان کامیابیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک سیاست دان کے لئے یہ اعلیٰ ترین عہدوں پر رسائی حاصل کرنے کی واضح اور مضبوط ترین نشانی ہے۔ اللہ کے فضل کے بعد اسی کے بدولت یہ وزیراعظم بنتے رہے انکی جان بچتی رہی اور یہ سیف ایگزٹ لیتے رہے۔
نواز شریف کند ذہن نہیں ہیں مناسب ذہنی صلاحیت موجود ہے لیکن غیر معمولی ذہانت نہیں ہے، نہ ہی کسی لالچ یا پیسے کی ہوس کی نشاندہی ہو رہی ہے بلکہ خرچ کرنے کے معاملے میں کشادہ دل ہونگے۔ انگوٹھا بہت طاقتور ہے تو واضح طور پر قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں انہیں نا اہل رہنما نہیں کہا جا سکتا۔ انکی بار بار اسی ایک سوارخ سے ڈسے جانے کی وجہ انکا نمایاں طور پر ابھرا ہوا زہرہ کا ابھار ہے جو انہیں زندگی کی luxuries کو قربان ہونے پر آمادہ نہیں کرنے دیتا۔ دوسرا اشتعال پر مبنی فیصلوں کی عادت انہیں نقصان پہنچاتی ہے۔
آگے کیا ہوگا؟ کیا نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنیں گے؟
مشتری پر ستارے کی وجہ سے نواز شریف کے دوبارہ اقتدار میں آنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا مگر میرے تجزیہ میں ایسا نہ ہونے کا زیادہ چانس ہے۔ کیوں؟ چرچل کے مشتری پر اسٹار تھا تو وہ دو بار وزیراعظم بن سکے۔ پنڈت نہرو کے مریخ کے ابھار مثبت پر اسٹار تھا تو تین بار وزیراعظم بنے۔ لیکن وہ مسلسل وزیراعظم رہے۔ نواز شریف کا اسٹار جوپیٹر پر ہے جس کا نمبر تین سمجھا جاتا ہے تو اس کلیہ کے تحت تین بار نواز شریف اقتدار حاصل کر چکے ہیں۔ چوتھی بار وزیراعظم یا صدر بننے کے امکانات کم ہیں۔ مقدر کی لکیر منتشر ہے۔ مگر مشتری کی جانب جاتا حصہ کچھ نمایاں ہو رہا ہے۔
75 برس کی عمر کے بعد زندگی کی لکیر اپنی توانائی کو آہستہ آہستہ کھو رہی ہے۔ نیز زندگی کی لکیر کا رخ 50 برس سے ہی چاند کے ابھار کی طرف ہے جو واضح طور پر انکا اپنی جائے پیدائش سے دور رہائش پذیر ہونے کی دلیل ہے جو کہ ایک ثابت شدہ فیکٹ ہے۔ آگے چل کر بھی ملک میں آتے جاتے رہیں گے۔ شہرت کی لکیر شاندار ہے تو نواز شریف کا ووٹ بینک اور انکا حلقہ اثر انکی وفات تک برقرار رہے گا۔ انکی مرضی کے بغیر ن لیگ سے کوئی اور وزیر اعظم نہیں بن سکے گا۔
انتباہ: یہ پامسٹری کے اصولوں کے تحت کیا گیا تجزیہ ہے کسی حتمی دعوے کی کوشش نہیں۔