Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Malik
  4. Khilari Ya Adakar

Khilari Ya Adakar

کھلاڑی یا اداکار

پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس کو فی الحال آپ الگ رکھ دیں۔ مجھے جو شدید چڑ ہوچکی ہے وہ ٹیم کا اوور ایکٹر، نقال کرداروں سے لب لباب بھرا ہونا ہے۔

سب سے پہلے ہمارے کپتان شان مسعود جن کی صرف انگریزی اوسط سے بڑھ کر ہے۔ موصوف کیونکہ کاؤنٹی کرکٹ کھیلتے ہیں تو "بیز بال" سے متاثر ہیں۔ چونکہ ذہن کسی حد تک فدویانہ ہے تو اس کی نقالی کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بھائی تم مناسب بلے باز بن سکتے ہو۔ دفاع اچھا ہے آرام سے کھیلو اور رنز بناؤ۔ نہیں ہم نے سستی نقالی کرنی ہے۔ پھر کپتانی اتنی پھس پھسی ہے کہ بس چہرے پر جذبات کا ایک بحر کراں سمندر سجا کر بلاوجہ کی اچھل کود کو جارحانہ کپتانی کا نام بھی دینے کی جرات رکھتے ہیں۔ انگریزی کے متاثرین تجزیہ نگار بھی ان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ وجہ حب عمدہ انگریزی ہی ہوگی۔ شان صاحب یہی موقع ہے کہ آپ کو چھ مسلسل شکستوں کے بعد بھی کپتانی دی گئی ہے تو قسمت کے اس لکھے کو قبول کرکے اپنی کچھ عزت بنا لیں۔ اداکاری، صلاحیت اور وثزن کا متبادل نہیں ہوسکتی۔

ہمارے سینئر اداکار رضوان کا شروع سے ہی شعیب اختر، شاہد آفریدی جیسے بال رکھنے اور بلاوجہ کے کیمپس پڑوانے کا ازلی شوق ہے۔ جب بھی آؤٹ ہونگے کوشش کرینگے اپنی تھائی کو کسی طرح ذمہ دار بنا کر پیش کریں اور پھر لازمی ہیلمٹ اتار کر اپنے نئے سیدھے کئے گئے بالوں پر ہاتھ پھیرتے پویلین چل دینگے۔ رضوان ایک اچھا محنتی کھلاڑی ہے اور ون ڈے ٹیم کی بہت عمدہ کپتانی کر رہا ہے۔ پرفارمنس بھی شاندار ہے۔ یہاں میں صرف نفسیاتی چھانٹ پھٹک کر رہا ہوں۔ باقی رضوان نمازیں پڑھے تبلیغ کرے اس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں نہ بنتا ہے مگر گراؤنڈ میں بلاوجہ اپنے آپ کو پھنسا کر بیٹنگ کرنا جیسے پچ بہت مشکل ہے اسی لئے میں شروع میں سلو کھیل رہا ہوں۔ تو برادر میں نے ہزاروں انٹرنیشنل میچز دیکھ رکھے ہیں۔ ہم باڈی لینگویج سے کچھ نہ کچھ اندازہ کر ہی لیتے ہیں۔ فوکس رکھیں رضوان آپ بہت اچھی لیگسی بنا سکتے ہیں۔

کامران غلام ایک ابھرتے ہوئے اداکار ہیں ویسے ہی جیسے ہمارے سوشل میڈیا پر ابھرتے ہوئے تجزیہ نگار اور دانشور ہیں۔ کسی نے حضرت کے دماغ میں جارحانہ کرکٹ کا منتر کیا پھونکا کامران واقعی ہی بہت جارحانہ کھیلنا شروع ہو چکا ہے۔ مگر اب کمبل سے ٹانگ ایسی نکلی ہے کہ موصوف کو ہر فارمیٹ میں ایک ہی چس لگ گئی ہے۔ اگر اسی قسم کے احمقانہ اسٹروکس جارحانہ کرکٹ کے نام پر کھیلتے رہے تو جلد ٹیم سے باہر ہونگے۔ بیٹنگ کرتے وقت اسٹیون اسمتھ کے انداز کی بھونڈی نقل بھی کامران کے لئے کچھ اچھے جذبات پیدا نہیں کرتی۔

سپر اسٹار بابر کا دماغ پچھلے دو ڈھائی سال سے خراب ہوچکا ہے۔ اچھا بھلا سوبر انسان تھا۔ کم از کم اپنی بیٹنگ میں جینئس بننے کی طرف گامزن تھا۔ لیکن پھر کپتانی اور اس سے متعلقہ لوازمات، یعنی پریس کانفرنس، انٹرویوز، مسلسل توجہ، پروٹوکول، چھوٹے بھائیوں کی حماقتیں، ہر وقت لش پش رہنے کی سستی سوچ نے بابر کے کھیل کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ مجھے بہت اچھی طرح علم ہے کہ ارتکاز کا بیٹنگ میں کتنا مرکزی کردار ہے۔ اس لئے کوئی بھی مجھے اس بات پر قائل نہیں کر سکتا کہ بابر کی بیٹنگ پر ان چیزوں کا اثر نہیں پڑا ہوگا۔

بابر سے جب سے کپتانی گئی ہے ہر وکٹ پر اچھل اچھل کر جشن مناتا ہے تاکہ سب پر ظاہر کر سکے کہ میں بغیر کپتانی کے کتنا خوش اور ٹیم مین ہوں۔ اس نمائشی ذہنیت نے اسکے کھیل کو زنگ لگا دیا۔ ہر میچ میں چاہے وہ ڈے اینڈ نائٹ ہی کیوں نہ ہو منہ پر سفید کریم تھوپنا بھی مجھے تو انتہائی سفلا پن لگتا ہے۔ اپنے آپ میں مطمئن رہو بھائی۔ ہم نے تمھارے ہئر اسٹائل، کپڑے دیکھ کر تمہیں سپر اسٹار نہیں بنایا۔ تمھارے تسلسل اور بیٹنگ کلاس نے بہت سوں کو مسخر کیا۔

بہرحال جاری ٹیسٹ میچ میں بابر نے اپنی تکنیک میں ایک بنیادی تبدیلی کی۔ وہ وائٹ بال کرکٹ میں مڈل پر کھڑے ہو کر پھر ہلکا سا شفل کرکے آف سٹمپ پر آتا ہے اب دونوں اننگز میں ایل بی ڈبلیو سے بچنے کے لئے لیگ پر گارڈ لیا ہے جو کہ اچھے تبدیلی ہے۔ گو اسی کی وجہ سے پہلی اننگز میں وہ بولڈ بھی ہوا مگر بابر کو احساس ہوچکا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں اسے پرفارم کرنا ہے۔

سلمان علی آغا بھی ایک ہلکا پھلکا اداکار ہے مگر وہ چونکہ نیچرل ہے اور شروع سے ہی ایسا ہے اس لئے اس پر کسی کی نقالی یا اوور ایکٹنگ کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔

ساجد خان بھی ایک فطری اداکار ہیں اور جلد ہی اپنی اعلیٰ اداکاری کو اتنا بلندی پر لے جائیں گے کہ ٹیم سے باہر ہو جائیں گے۔ چونکہ یہ مادہ انکے اندر شاید بچپن سے ہے اس لئے ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کبھی کبھی کنٹرول کر لیا کریں۔ بہر حال آف اسپنرز اکثر انوکھے ہی ہوتے ہیں۔

ٹیم میں نعمان علی، سعود شکیل وغیرہ نیچرل ہیں۔ ممکن ہے آگے چل کر وہ بھی کسی مولڈ Mould میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔ خیر نعمان علی بیچارہ اب بڑھاپے میں کیا مولڈ کریگا۔

میری تمنا ہے کہ کھلاڑی اپنے آپ کو بہتر کرتے رہیں اپنی شخصیت کو تراشتے رہیں مگر کسی بھی Inspiration کو اپنے اوپر طاری نہ کریں۔ اپنی فطری شخصیت کو وسعت دیکر نئے خیالات اور افعال کو جگہ دیں۔ بلا غور و فکرکے نقالی، کاپی کرنا، یہ سنجیدہ بہتری کی کبھی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ ذہنی گراوٹ کی طرف واضح اشارہ ہے۔

وائٹ بال کرکٹ میں امام الحق، شاہین، حارث، نسیم شاہ، شاداب، وغیرہ کی ابھرتی ڈوبتی ظاہر پسندی کو پھر دیکھ لیں گے۔ ہاں فخر زمان ایک خالص جینوئن کردار ہے۔

یاد رہے کہ کرکٹ میں ذہن کے کردار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔

لگے ہاتھوں دوسری ٹیموں کے چند فیک کرداروں کا بھی ذکر کر دوں۔ ویرات کوہلی بطور انسان برا آدمی نہیں مگر اس نے ایک فیک مگر انتہائی کامیاب میگا پرسنالٹی کا Persona بنا رکھا ہے۔ اسکے برعکس روہت شرما ایک مکمل نیچرل شخصیت کا مالک ہے۔ اندر باہر سے ایک۔ پنت، بمرا، بھی مکمل فطری شخصیت پردے سے ہر ممکن پاک کردار ہیں۔ شبھمن گل، راہول، پانڈیا فیک ہیں۔ پیٹ کمنز، اسٹیو اسمتھ وغیرہ ڈپلومیٹک ٹائپ ہیں یعنی صورتحال کے مطابق اپنی شخصیت کے کردار کو سامنے لے آتے ہیں۔ میکسویل، ایک جینوئن، مصنوعیات سے پاک کھلاڑی ہے۔

بین اسٹوکس نے پلانڈ شخصیت بنا رکھی ہے جسے نصف تو فیک ہی کہا جائے گا مگر باقی شخصیت انتہائی جینوئن اور قبائلی نیچر کی ہے۔ بٹلر ایک متوازن فطری کردار ہے۔ باقی گورے اکثر لبرل سماج کے تناظر میں فیک ڈپلومیٹک بنے رہتے ہیں۔ ایوائن مورگن ایک جینوئن کردار تھا۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz