Kamre Kaise Thande Hon
کمرے کیسے ٹھنڈے ہوں
رات تیرہ بجکر تئیس منٹ، اٹھارہ سیکنڈ، انتالیس مائکرو سیکنڈ اور چون نینو سیکنڈ پر دفعتاً میری آنکھ کھلی۔ میرا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ بجلی جا چکی تھی اور کمرہ کسی تندور کی طرح تپ رہا تھا۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں آپ اس صورت حال میں کیا کرینگے؟ یقیناً آپ بھی حکومت کو گالیاں دینگے، واپڈا کو صلواتیں سنائیں گے اور اپنے منہ پر مچھروں کی پٹائی کرنے کے بعد میاں حسن نواز شریف کی طرح باوضو ہو کر سو جائیں گے۔ لیکن آخر کب تک آپ یونہی لکی ایرانی سرکس کے بندر کی طرح روٹین میں پھنسے رہیں گے۔ کب تک کوہ الپس جیسی برفانی ہواؤں والے اے سی پر اکتفا کرینگے اور لاکھوں روپے کے بل دینگے؟ آپ کو کچھ کرنا ہوگا۔ میں نے ارادہ باندھا اور قہقہہ لگا کر خواجہ بصارت حمید صاحب کے پاس جا پہنچا۔
خواجہ صاحب کنسٹرکشن سے وابستہ ہیں اور بلا چونا لگائے شاندار گھر بناتے ہیں۔ میں انکا فین ہوں۔ میں پہنچا تو انکا کمرہ بھی سرد تھا اور خود بھی پسینے سے پاک تھے۔ میں نے سوال دراز کیا۔ خواجہ صاحب ریاست تو عمران کے جیل سے بھیجے گئے لو لیٹر نہیں روک سکتی۔ اس لئے جو کرنا ہے ہم نے خود ہی کرنا ہے۔ عوام اس گرمی سے بچنے کے لئے کیا کرے؟
بصارت صاحب نے قہقہہ لگایا، اپنے چشمے اتار کر صاف کئے، جرابیں اتار کر سلیقے سے رکھیں، بغلوں پر پاؤڈر چھڑکا اور سکون سے بیڈ پر دراز ہوگئے۔ میں حیران و پریشان۔۔ خواجہ صاحب بولے "جاوید آپ کو بس یہی کرنا ہے" میں نے ہونقوں کی طرح پوچھا کیا کرنا ہے؟ بصارت صاحب نے کہا، اچھا تمہیں سمجھاتا ہوں۔ " تم گلی میں جاؤ۔ اور پان والی تھوک تلاش کرو، اس تھوک میں سفید رنگ اپنی زبان سے مکس کرو، ہلکا سا نیلا تھوتھا چھڑک کر پریکلی ہیٹ پاؤڈر بھی ڈال دو۔ اس محلول کو کاغذ میں ڈال کر دھاگے سے اپنی بغلوں پر باندھ لو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارا پورا جسم سرد ہو جائے گا۔ بس کمرے میں جاؤ اور سکون سے لیٹ جاؤ۔ اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو اپنے کمرے کی دیوار چار انچ کے بجائے پچیس انچ کی بنوا لو اور سرد کمرے میں موج کرو "۔ خواجہ صاحب نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور آنکھیں موند کر لیٹ گئے۔
میں شہباز شریف صاحب کی گرین میٹرو پر لٹک کر تقریباً ہوا کی رفتار سے ابن عاقل صاحب کے گھر جا پہنچا۔ ابن عاقل صاحب کمال کے شخص ہیں۔ یہ لوگوں کو مچھلی نہیں دیتے، مچھلی پکڑنا سکھاتے ہیں۔ یہ واقعی ہی ولی ہیں۔ میں نے وہی سوال پوچھا۔ عاقل صاحب بولے "جاوید تم بھینس کا گوبر لو، اس میں نیلی پھٹکری پیس کر مکس کرو اور اپنی کمر پر لگا کر سو جاؤ۔ پسینے سے گوبر برف کی طرح سرد ہو جائے گا۔
بیدار ہونے کے بعد گوبر میں سفید چونا، ایکرلک، اور پانی ملا کر اپنی کمر سے رگڑ کر اپنے گھر کے گرم ترین کمرے کی بیرونی دیواروں پر لگا دو۔ کمرہ پندرہ ڈگری ٹھنڈا ہو جائے گا اور تمہیں محنت سے کام کرنے کی عادت بھی پڑ جائے گی۔ " میں اس شخص کی مہارت پر حیران رہ گیا۔ میں اٹھنے لگا تو بولے تم آرام سے یہ برفیلا گوبر ایکسپورٹ کرکے لاکھوں ڈالر ملکی اکانومی میں ڈال سکتے ہو۔ میری وزیراعظم شہباز شریف صاحب سے استدعا ہے کہ وہ ابن عاقل جیسے لوگوں کی قدر کریں اور انہیں اپنا مشیر بنائیں وگرنہ ہم کب تک ایک ارب ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑتے رہیں گے۔
پس نوشت: یہ مکمل طور پر ایک فرضی تحریر ہے اور جن دو پیاری شخصیات کو اس طنز و مزاح میں شامل کیا گیا ہے وہ انکی مہارت اور قابلیت کی پذیرائی ہے۔ اس لئے ٹھٹھہ نہ اڑا جائے۔ کمنٹس میں شائستگی ملحوظ خاطر رہے۔