Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Malik
  4. Hum Azad Qaum Hain

Hum Azad Qaum Hain

ہم آزاد قوم ہیں

ایک طرف تو شدید گرمی نے خون ابال رکھا ہے، دوسرا ہمارے اجتماعی رویوں کی پھپھوندی زدہ جہالت اور کمینگی ہے جس کی پستی کا ناپ تول ابلیس بھی شاید نہ کر پائے۔ اسی رزدیل پن کے پیکج میں اپنی نام نہاد اخلاقی برتری، اللہ پر بودے اور مشرکانہ یقین اور زعم پارسائی کا تڑکہ اس نیچ پن کی ذلالت کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔

جیسے ہی آپ گھر سے باہر نکلیں گے، گالیاں کسی پریشر زدہ پائپ سے نکلنے والے پانی کی طرح رواں ہو جائیں گی۔ سڑک پر کسی پولیو زدہ دو پائے کی طرح حماقت زدہ بہادری کے تصور کے تحت چلتے پھرتے موت کے پھندے جا بجا آپ کو ملیں گے۔ مجال ہے عقل، احساس، ذمہ داری یا یا انسانیت کی رمق بھی کہیں رگوں میں پائی جاتی ہو۔ جو گاڑی پر بیٹھا ہے وہ جیسے گلی کے کتے َاپنی سیٹ پر بٹھا کر انکے اوپر بیٹھ کر ڈرائیونگ کر رہا ہے۔ اچانک بغیر سگنل جدھر منہ آیا ادھر گاڑی موڑ دی یا گلی یا روڈ میں 70 فیصد روڈ پر قبضہ کرکے اپنے گمشدہ والد کی یاد میں گاڑی پارک کر دی۔ ہارن دو تو ایسے دیکھیں گے کہ جیسے گناہ ہم نے کیا ہو۔

بائک والے ہمیشہ الٹی جانب سے اوور ٹیک کرینگے اور انہیں جلدی اتنی ہوتی ہے کہ مرنا ہے تو مرینگے، معذور ہو جائیں گے مگر ہم بہادر ہیں ہم گاڑیوں ٹرکوں بسوں سے نہیں ڈرتے، اپنے گھر والوں۔ والدین اور دیگر سفر کرنے والے جائیں بھاڑ میں، ہم ہر سمت سے حملہ آور ہو کر سفر کرینگے اور اگر کسی گاڑی والے کو زیادہ تکلیف ہے تو اس ملک سے دفع دور ہو جائے۔ ہم آزاد قوم ہیں۔

پیدل جانے والے کسی ایسے انجانے ذہنی مرض میں مبتلا ہیں جس کا نام بھی سائیکالوجی ابھی تک نہیں سوچ پائی۔ میرا خیال ہے کہ اس مرض کا نام ناپاک ترین جانور سنڈروم ہے۔ اسکی چیدہ چیدہ خصوصیات میں اول تو سڑک کے نصف حصے پر دم ہلاتے چلنا ہے، دوم اپنے بچوں کو سڑک والی سائڈ پر چلا کر انہیں بہادر بنوانے کی مشق کروانا، سوم ہارن پر دس پندرہ سیکنڈ ٹس سے مس نہ ہونا، چہارم، زیادہ ہی بہادر جینز والے مہا ناپاک جانور والوں کا آنکھیں آسمان کی طرف کرکے روڈ کراس کرنا تاکہ وہ یہ باور کروا سکیں کہ ہم زندگی اور اس فانی دنیا کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، پنجم، خواتین کا ہر قسم کی ٹریفک کی روانی کو ساس کی ہدایات کی طرح اگنور کرنا شامل ہے۔

دکان میں داخل ہو تو سیلز مین اور دکاندار کسی ہڈی کو بھنبھوڑتے کتے کی طرح لپک کر پہنچیں گے کہ بس اندر داخل ہو اور فورا آرڈر کرو۔ جیسے ہی آپ دو تین چیزوں کی قیمتیں دریافت کرینگے، اگلے کے چہرے پر سور زدہ موت والی کیفیات آویزاں ہوجائیں گی۔ اور اگر آرڈر کر دو تو ایسے بے نیازی اور سستی سے آرڈر پیک کرینگے جیسے مال نہیں اپنی بہن کو میکے بھیج رہے ہیں۔ کسی چوکیدار گارڈ کو خدا خوفی کے چکر میں پیسے دے دو تو اگلی بار بہت محبت سے ملے گا، اگلی بار پیسے نہ دئیے تو رویہ آہستہ آہستہ سرد ہوتا چلا جائے گا اور کچھ دنوں میں ایسے ناراض پھپھی کی طرح دیکھے گا جیسے اسے پیسے دینا میری ابدی ذمہ داری تھی۔

ریڑھی والوں، تاجروں اور کسانوں کی محبت میں ہم باؤلے ہو کر منہ سے جھاگ اڑا رہے ہیں کہ چونکہ ہمیں اچھا بننے، لگنے، نیک بننے اور دکھنے کی ایسی ہڑک ہے کہ ہم اپنی مثبت سوچ سے شیاطین کے حقوق کے لئے بھی اپنی دموں پر اچھل اچھل کر سرگرم عمل ہونگے مگر سامنے کی بات تسلیم کرنے کی جرات نہیں کہ جگہ جگہ ہر چیز میں صرف ملاوٹ ہی نہیں بدترین، غلیظ ترین، مکروہ ترین، ابلیسیت سے بھی بدتر قسم کی ملاوٹ، دو نمبری، فراڈ اور سفلی پن ملے گا۔

لیکن نہیں سچ نہیں بکنا، بس سچا بننے، دکھنے اور وڈا عظیم سچا کھرا انسان نظر آنے کی احساس کمتری اتنی توانا ہے کہ اسکے سامنے کچھ نہیں ٹھہر پاتا۔

مثلاً اگر میں کہوں ساری قوم ہی اخلاق باختہ اور عملی طور پر گدھ ہے تو چند اچھے نیک دانشور تڑپ کر دفاع میں اپنی وال کو مزید جھوٹ سے سجا دینگے مگر اگر میں یہ کہوں کہ ہمارے دیس میں وکیل جھوٹا ہے، جج نا انصاف ہے، سیاست دان مکار فریبی ہے، فوجی نا اہل، ظالم ہے، ڈاکٹر زہر ناک ہے، تاجر ابلیسی ہے، سرکاری افسر کمینہ ہے، پٹواری رزدیل ہے، ملا خبیث اور استاد جاہل ہے تو سب اٹھ کر تائید کرینگے۔۔ تو یہ قوم ہی تو ہے عقل کے اندھو۔۔ یہ سب اسی جوہڑ کے مینڈک ہیں۔

جھوٹ کی تکرار سے اور تربوز کی طرح قوم کو جعلی مٹھاس بھرے انجکشن لگانے سے اگر کسی قوم نے بہتر ہونا ہوتا تو تاریخ میں پیغمبروں تک کو ناکامی نہ ہوئی ہوتی جو اول و آخر سچے تھے تو تم جیسے اعمال و کردار کے نکمے سستی نصیحت بازی سے اپنی ہیرا منڈی پر تالیاں ہی بجوا سکتے ہو لوگ نہیں بدل سکتے۔

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer