Cricket Se Khilwar
کرکٹ سے کھلواڑ
کرکٹ پر مزید لکھنے کا ارادہ نہیں تھا کہ وطن عزیز میں کھیلوں کے علاوہ بھی بہت سے کھلواڑ چل رہے ہیں۔ لیکن کل چند دھماکہ خیز خبروں نے مجبور کر دیا ہے کہ میرے دل سے قریب کرکٹ کے معاملات پر کچھ لکھا جائے اگرچہ جس سے کسی کی صحت پر قطعاً کوئی فرق نہیں پڑنا مگر میں اپنی بات کہہ کر ہی سکون پا سکوں گا۔
ایک ہی دن میں جس توہین آمیز انداز میں بابر اعظم جیسے once in a generation پلیئر کو بلا کر دھمکی آمیز انداز میں ایک فارمیٹ کی کپتانی دینے کا لالی پاپ دیکر استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا گیا ورنہ فارغ کر دینگے، اسی ایک دن میں مکی آرتھر اور گرانٹ بریڈ برن، مینجر کسی سے بھی تفصیلی رپورٹ نہ مانگی گئی نہ لی گئی بلکہ انکی بات اور تجاویز تک نہیں لیں گئی اور ذلت آمیز میں انہیں demote کرنے کا بتا دیا گیا۔
یہ کیا طریقہ ہے؟ ایک بندہ جسے کرکٹ کی ککھ سمجھ نہیں اور وہ کرکٹ کے تجربہ کار لوگوں کو یوں بھونڈے انداز میں ذلیل کرکے برطرف کر رہا ہے؟ یہ انتہائی افسوسناک تھا بلکہ حد درجہ گھٹیا پن تھا۔ یہ پی سی بی جیسا ادارہ ہے؟
بابر اعظم سے ذکا اشرف کے تعلقات اچھے نہیں تھے یہ ورلڈ کپ سے پہلے سے اور دوران ورلڈ کپ ہی ثابت شدہ ہے۔ اس لئے ذکا اشرف تیار بیٹھے تھے کہ ابھی وطن واپس آئے ایک ڈیڑھ دن ہی گزرا تھا کہ دھڑا دھڑا تبدیلیوں کے اعلان کر دیئے۔
طریقہ کار بدترین تھا مگر فیصلہ بہترین ہے۔
بابر اعظم حکمت عملی، کرکٹنگ جبلت، ویژن اور جرات آمیز انداز میں بری طرح lack کرتا تھا۔ بابر کی بطور بلے باز عظمت طے شدہ امر ہے مگر بطور کپتان وہ ایک below average کپتان تھا۔ اس لئے اسکا استعفیٰ یا برطرف ہونا اصولی طور پر درست فیصلہ ہے۔ بابر کی بطور کپتان اچھی بات یہ رہی کہ وہ ایک اچھا انسان ہے، اس نے ٹیم کھڑی کی، اسٹارز بنائے اور بغیر تنازعات سے گریس کے ساتھ کپتانی کی اور ایک اچھے مین مینجر ہونے کا ثبوت دیا۔ بابر آگے بڑھو اور اپنے کھیل کو اگلے لیول پر لیکر جاؤ میچ فنشر بنو، حاوی ہو کر کھیلو۔ کپتانی کا غم جلد سے جلد ذہن سے نکال دو۔
مکی آرتھر ایک جوکر کوچ ہے۔ اسے آن لائن کوچنگ کے لئے رکھنا نجم سیٹھی کی حماقت تھی اور مکی کی کوچنگ میں چمپیئنز ٹرافی جیتنا فرشتوں کی حماقت ہی کہی جا سکتی ہے۔ مکی آرتھر اپنی ناکامیوں کا ٹوکرا اٹھا کر اور پیسے کھرے کرکے ڈربی شائر واپس چلا جائے گا کیونکہ اکیڈمی میں کوچنگ تو اس نے کرنی نہیں۔ بریڈ برن بیچارہ چھ آٹھ ماہ کی کارکردگی پر نکالا گیا جو کہ ایک زیادتی ہے۔ مگر اسکے کوچنگ credentials بھی اتنے خاص نہیں تھے۔
شان مسعود کی ٹیسٹ کپتانی میں انکے والد صاحب کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو کہ خبروں کے مطابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے مشیر ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شان کے علاوہ ٹیسٹ ٹیم میں کپتانی کا کوئی موزوں آپشن فی الوقت موجود بھی نہیں ہے۔ سرفراز تو اپنے دور عروج میں بھی ایک ناکام ٹیسٹ کپتان تھا۔ رضوان کی جگہ ٹیسٹ میں بن سکتی ہے مگر رضوان ایک اوور ایکٹر ہے۔ ٹی ٹونٹی کا کپتان تو لیگز سطح پر اچھا ہے مگر انٹرنیشنل لیول کا کپتان نہیں۔ شاداب میں کپتانی کا پوٹینشل ہے مگر اسکی پرفارمنس اتنی ناقص ہے کہ ٹیم میں جگہ بنانا مشکل ہوچکا ہے تو تب انہی کپتانوں پر گزارہ کرنا پڑے گا۔
شان مسعود کو حفیظ کی بہت حمایت حاصل رہی ہے۔ اس لئے حفیظ کا input بھی لازمی ہوگا اور حفیظ کے ذکا اشرف سے 2012 سے اچھے تعلقات ہیں جب انہوں نے حفیظ کو کپتان بھی بنایا تھا۔
شان کا ایشو انکا ناقص کیریئر ریکارڈ ہے۔ اس لئے انکے لئے فوری طور پر اچھی پرفارمنس لازم ہے تاکہ ڈریسنگ روم میں وہ عزت حاصل کر سکیں۔ شان مسعود میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں گو اچھی انگریزی بولنے کو قائدانہ صلاحیتوں کا مترادف مت سمجھا جائے۔ بہر حال پہلا ٹور بہت سخت ہوگا ایک اچھی پرفارمنس شان کی جگہ بطور کپتان پکی کر دیگا۔ ورنہ دو تین سیریز میں خلاصی ہو جائے گی۔
شاہین آفریدی کی کپتانی میں بھی سسر صاحب کے کردار بھی بالکل موجود ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھیں کہ یہ پاکستان کا کلچر ہے کہ اہل لوگوں کو بھی سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ شاہین کسی سازش میں شریک ہے۔ جب کپتان لگا بندھا ہو، بولنگ فلاپ اور بیٹنگ ڈری سہمی اور سلفش ہو تو آپس کے اختلافات کو وجہ بنانا اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ شاہین نے دو پی ایس ایل جیتے ہیں تو اصولاً بابر کے بعد اسکا نمبر بنتا ہے۔ لیکن مجھے فکر یہ ہے کہ دونوں مجوزہ کپتانوں کی پرفارمنس زوال پذیر ہے۔ بہر حال آگے کے لئے گڈ لک۔
حفیظ کی بطور ڈائریکٹر تقرری ایک عمدہ فیصلہ ہے۔ حفیظ کرکٹ کو اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں اور بطور تجزیہ نگار انہوں نے دلیری اور مصلحت آمیز Woke انداز کے بغیر بات کرتے ہیں یہ دیکھنا سننا بہت خوش آیند ہے۔ لیکن حفیظ کے لئے بہت مشکل مراحل آنے والے ہیں۔
چیف سلیکٹر بطور وہاب ریاض بھی ایک سیاسی تقرری ہی لگتی ہے بلکہ لگتا ہے کہ حفیظ کو ایک ڈمی سلیکٹر درکار تھا تو نگران وزیر کھیل کو لایا گیا ہے۔ مجھے وہاب سے کچھ زیادہ اچھی امیدیں نہیں ہیں۔ جونیئر سلیکشن کمیٹی میں سہیل تنویر ککڑی گراؤنڈ لیول کی کرکٹ کو جانتا ہے۔ انکا بیرون ملک بھی بہت تجربہ ہے مگر سہیل تنویر کو دیکھنا ہوگا کہ وہ صرف اپنی طرح کے ٹی ٹونٹی بولر ہی نہیں پک کرتا رہے۔
مصباح الحق اگر ایک ٹیکنیکل کمیٹی میں تادم تحریر موجود ہے مجھے کوئی بتائے گا کہ مصباح کا ان فیصلوں میں کیا رول ہے؟ اگر نہیں ہیں تو مصباح اپنی اس توہین پر کیوں خاموش ہیں؟
آخر میں یہ کہنا بنتا ہے کہ عاقب جاوید کا زہریلا پراپیگنڈا، لاہور قلندرز کا پی سی بی پر coup اور شاہد آفریدی کی chess game کامیاب ہو چکی ہے۔ لیکن ہماری ٹیم کے کپتانوں کو میں مکمل سپورٹ کرونگا۔ اب اگر ٹیم سلیکشن حفیظ بہتر کرتے ہیں اور بابر، شاداب، نسیم شاہ، رضوان، فخر اور شاہین کی کور ٹیم کی پرفارمنس بہتر سے بہتر رہتی ہے تو مستقبل میں ٹائٹل کی امید عین ممکن ہے۔