Ye Jahan Ke Engine Kyun Band Kiye?
یہ جہاز کے انجن کیوں بند کیے؟

بھارت کے شہر احمدآباد میں تباہ ہونے والے ائیر انڈیا کے بوئنگ 787 کی کاکپٹ ریکارڈنگ (EAFR) میں پائلٹ آپس میں یہ بات کرتے سنائی دیے۔ یہ انجن ٹیک آف کے بعد کس نے آف کیے، کیسے ہوئے، کوئی نہیں جانتا۔۔
بھارت میں حالیہ ہوائی جہاز (AI171) حادثے کی ابتدائی رپورٹ نے ہوابازی کی دنیا میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ AAIB کی رپورٹ میں ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا گیا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کے انجن کی فیول سپلائی کے دونوں سوئچ CUT OFF پوزیشن پر تھے، مگر یہ بات ہنوز ایک معمہ بنی ہوئی ہے کہ انہیں کس نے آف کیا۔ یہ صورتحال کئی سوالات کو جنم دیتی ہے اور اس واقعے کو مزید پراسرار بنا دیتی ہے۔
عام طور پر، انجن کٹ آف سوئچز صرف ہنگامی صورتحال میں، جیسے کہ آگ لگنے یا انجن میں شدید خرابی کی صورت میں، استعمال کیے جاتے ہیں (طیارہ ائیر پورٹ پر رک جانے کے بعد بھی یہ آف کردیے جاتے ہیں)۔ ان سوئچز کا آف ہونا طیارے کے انجنوں کی مکمل بندش کا سبب بنتا ہے، جس کے نتیجے میں طیارہ اپنی طاقت کھو دیتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سوئچز پائلٹ کی کسی غلطی سے آف ہوئے؟ کیا تکنیکی خرابی نے انہیں آف کیا؟ یا پھر یہ کسی سبوتاژ کی کارروائی تھی؟
جہاز اڑان بھرنے کے بعد 8 بج کر 9 منٹ اور 52 سیکنڈ پر پہلا انجن آف ہوتا ہے اور 4 سیکنڈ پر ہی دوسرا انجن آف ہوتا ہے پھر دونوں انجنز کو پتا چلنے پر Run پوزیشن پر کیا جاتا ہے لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ جہاز کو اس وقت بہت پاور چاہیے ہوتی ہے اوپر اٹھنے کے لیے لیکن گریوٹی جیت جاتی ہے اور 260 جانیں ہار جاتی ہیں۔
انجن کٹ آف سوئچز کی حفاظت کے لیے خصوصی حفاظتی نظام نصب ہوتے ہیں۔ ان سوئچز کو عام طور پر گارڈڈ بریکٹس (guarded brackets) کے اندر رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ان سوئچز میں اکثر ایک پُل ٹو آپریٹ (pull-to-operate) میکانزم بھی ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ انہیں صرف دبانے کے بجائے پہلے اوپر کی طرف کھینچنا پڑتا ہے تب جا کر انہیں حرکت دی جا سکتی ہے۔ یہ حفاظتی اقدامات اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہیں کہ کوئی بھی پائلٹ یا عملے کا رکن انہیں غلطی سے یا غیر ارادی طور پر آپریٹ نہ کر سکے۔
تحقیقاتی ادارے ان تمام پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں۔
انڈیا کے ادارے کی طرف سے اس رپورٹ میں امریکہ کی ایک 2018 کی رپورٹ کا بھی ذکر ہے جس میں بوئنگ 737 کے کنٹرول سوئچز کے بارے میں پروٹیکشن کے disengage رکھنے کا ذکر ملتا ہے یعنی اس پروٹیکشن کو ایکٹو نہ رکھنا کوئی بڑا کام نہیں تھا (اگر ایسا ہوا ہے)۔
اگرچہ تکنیکی خرابی ایک امکان ہو سکتی ہے، لیکن دونوں سوئچز کا بیک وقت آف ہونا کسی بڑے برقی یا میکانکی نقص کی نشاندہی کرتا ہے۔ تاہم، جدید طیاروں میں ایسے حفاظتی نظام نصب ہوتے ہیں جو اس طرح کی غیر ارادی بندش کو روکتے ہیں۔ ان حفاظتی اقدامات کے باوجود اگر دونوں سوئچز آف ہو گئے، تو یہ اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
تحقیقاتی اداروں کو اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے انتہائی محتاط اور جامع تحقیقات کرنی ہوں گی۔ طیارے کے فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر (FDR) اور کاک پٹ وائس ریکارڈر (CVR) سے حاصل ہونے والی معلومات کلیدی اہمیت کی حامل ہوں گی۔ یہ ڈیوائسز آخری لمحات کے تمام ڈیٹا اور کاک پٹ میں ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کرتی ہیں، جو اس معمے کو حل کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔
اس حادثے کی مکمل تحقیقات اور اس کے ذمہ داروں کا تعین نہ صرف متاثرین کے لواحقین کو انصاف فراہم کرے گا، بلکہ عالمی ہوابازی کی صنعت کے لیے بھی اہم سبق فراہم کرے گا تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات کو روکا جا سکے۔ جب تک یہ سوال حل نہیں ہوتا کہ ان سوئچز کو کس نے آف کیا، یہ حادثہ ایک پراسرار معمہ بنا رہے گا اور ہوابازی کی دنیا پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ جائے گا۔

