Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Ali
  4. James Webb Ne Science Dano Ko Pareshan Kar Diya

James Webb Ne Science Dano Ko Pareshan Kar Diya

جیمز ویب نے سائنسدانوں کو پریشان کردیا

کائنات کی عمر کی موجودہ ویلیو 13.81 ارب سال ہے لیکن میں ہمیشہ سے یہ سوچتا تھا کہ یہ کیسے اندازہ لگایا گیا کہ کائنات کی عمر اتنی ہے۔ ہبل دوربین سے پہلے یہ عمر 10 ارب سے 20 ارب سال کے درمیان مانی جاتی تھی جو ہبل دوربین کے کارناموں میں سے ایک ہے کہ کائنات کی عمر کا انتہائی درست تخمینہ لگایا گیا۔ کائنات کی عمر معلوم کرنے کے کیا طریقہ کار ہے اس بارے میں میری ایک تفصیلی ویڈیو میرے چینل پر موجود ہے۔

آج ہم اس کائنات کی عمر اور اس کے پھیلنے کی شرح معلوم کرنے میں سب سے اہم پیرامیٹر پر بات کریں گے جس کو "Hubble Constant" کا نام دیا جاتا ہے۔

اس ہبل کانسٹینٹ کی مقدار کو لے کر دو گروپس ہیں جن کی مقداریں ایک دوسرے سے مختلف آتی ہیں اور دونوں طرف ہی بہت قابل سائنسدان اور مضبوط تحقیق موجود ہے اسی لیے مقداروں میں اس فرق کو Hubble Tension کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اب اس Crisis in Cosmology کو لے کر جیمز ویب نے اس پیرامیٹر کی نئی مقدار معلوم کرنے میں کیا کام کیا آج اس پر بات کریں گے۔

یہ Hubble Constant اصل میں اس کائنات کے پھیلاؤ کی شرح ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ہم سے جو کہکشائیں جتنی دور ہوں گی وہ اتنی ہی تیزی سے ہم سے دور جارہی ہوں گی یا ان کی رفتار اتنی ہی تیز ہوگی۔ بیسویں صدی کا آغاز اس کائنات کی کھوج میں انتہائی اہم ہے جہاں ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ کائنات صرف ملکی وے کہکشاں ہی نہیں بلکہ اس کے باہر بھی لاکھوں کروڑوں اس سے بھی بڑی کہکشائیں ہیں۔ پھر ایڈون ہبل، الیگزینڈر فریڈمن، جارجز لیمترے، اور بہت سارے سائنسدانوں کی تحقیق سے پتا چلا کہ یہ کائنات تو پھیل رہی ہے اور اس کے پھیلنے کی رفتار کے مختلف نمبر نکالے گئے اور اسی پھیلاؤ نے بگ بینگ کی تھیوری کو بھی تقویت دی۔

سب سے پہلے جب 1929 میں Edwin Hubble نے Mount Wilson Observatory پر 100 انچ قطر کی دوربین سے کائنات کے پھیلاؤ پر مشاہدات کرکے اپنا تحقیقی مقالہ لکھا تو اس کانسٹینٹ کی مقدار 500 کے قریب نکالی گئی جو آج کی مقدار سے تقریباً 7 گنا زیادہ ہے۔

ہبل کانسٹینٹ کی مقدار نکالنے کے لیے ہبل نے خاص قسم کے ستاروں کو استعمال کیا جن کو Cepheid Variable Stars کہا جاتا ہے جو وقت کے ساتھ اپنی چمک میں ایک خاص تبدیلی لاتے ہیں جس سے ان کی دوری کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

ابھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے مختلف طریقے ہیں جو اس ہبل کانسٹینٹ کی ویلیو معلوم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں۔

1.Cepheids and Type Ia SN

2.Cosmic Microwave Background Radiation (CMB)

3.TRGB (Tip of the Red Giant Branch)

4.JAGB (Joint Asymptotic Giant Branch)

آئنسٹائن نے جب 1915 میں جنرل ریلیٹوٹی کا نظریہ دیا تو اس کی Field Equations میں کائنات کا ماڈل ساکن نہیں آرہا تھا تو اس کو اس میں Cosmological constant ڈالنا پڑا تاکہ کائنات کا وہ تصور جو چل رہا تھا وہ اس کی مساوات میں بھی نظر آئے۔ جس کو بعد میں آئنسٹائن نے اپنی بہت بڑی غلطی قرار دیا۔

ہبل کانسٹینٹ کی صحیح مقدار ہی اس کائنات کے پھیلاؤ اور عمر کا ٹھیک اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے۔ اس وقت ہبل کانسٹینٹ کی مقدار کے دو گروپس ہیں ایک Cosmic Distance ladder والا طریقہ جس میں وہ متغیر ستارے اور سوپر نووا ہیں اور ان سے اس کانسٹینٹ کی مقدار 73 اور 74 کے درمیان ہے یہ طریقہ لوکل کائنات کے مشاہدے پر منحصر ہے۔ دوسرا طریقہ (CMB) جو تھیوریٹیکل ہے جس میں اس کائنات کے آغاز سے 3 لاکھ 80 ہزار سال بعد نکلنے والے فوٹونز کی کم ہوتی توانائی کو ماپا جاتا ہے یعنی اس وقت کائنات بالکل ٹھنڈی نہیں بلکہ ہر طرف 2.73 کیلون درجہ حرارت موجود ہے۔ اس طریقہ سے ہبل کانسٹینٹ کی مقدار 67 کے قریب آتی ہے جو پہلے طریقہ سے مختلف ہے۔ اب یہ دونوں طریقہ کار ہی انتہائی مستند ہیں لیکن آپس میں ملتے نہیں ہیں۔ اس "ہبل ٹینشن" کو لے کر جیمز ویب نے اس کو ختم کیا یا اس کو مزید الجھا دیا، اس کو جاننے کی کوشش کریں گے۔

اب CMB کے طریقے سے ہبل کانسٹینٹ کی ویلیو معلوم کرنے کے بہت سارے مشن بھیجے گئے جن میں 3 قابلِ ذکر ہیں

1.COBE

2.WMAP (NASA): 2001 to 2010

3.Planck (ESA): 2009-2013

ہبل کانسٹینٹ کی ویلیو (CMB کے مطابق) یہ متعین کرتی ہے کہ کائنات میں کتنی ڈارک انرجی، ڈارک مادہ اور نارمل مادہ موجود ہے۔ لہذا کائنات کے پھیلاؤ کی کوئی بھی نئی ویلیو کائنات کے بنیادی اجزائے ترکیبی میں ایک بڑی تبدیلی لے کر آتی ہے۔ COBE کے مقابلے میں WMAP کی طاقت 45 گنا زیادہ تھی، اسی طرح Planck کی مائیکرو ویو بیک گراونڈ کو دیکھنے کی طاقت ان سب سے زیادہ ہے۔

ناسا کے WMAP مشن سے ایک سال، تین سال اور پانچ سال، اور نو سال کے ڈیٹا سے ہبل کانسٹینٹ اور کائنات کی عمر کے اندازے لگائے گئے جو 71 سے 69 تک نکالے گئے۔ پھر پلانک مشن سے جدید ترین اندازہ 67 کا لگایا گیا۔

دوسری طرف ہبل دوربین سے متغیر ستاروں اور سپر نووا (Type Ia) کا مشاہدہ کرکے ہبل کانسٹینٹ کی مقدار 74 تک نکالی گئی ہے اور اس طریقہ کار کے پیچھے نوبل انعام یافتہ ماہر فلکیات Adam Riess ہیں جو Johns Hopkins university میں پروفیسر ہیں۔ اب ان دونوں میں دہائیوں سے ایک تضاد چلتا آرہا ہے جو فلکیات میں چند بڑے مسائل میں سے ہے جن کا حل نکالنا انتہائی پیچیدہ ہے۔

اب باری آتی ہے جیمز ویب دوربین کی کہ کیا اس نے اس مسئلہ کے حل کے بارے میں کیا کچھ کیا؟

یونیورسٹی آف شیکاگو کی مشہور ماہر فلکیات Wendy Freedman اور ساتھی ماہرین نے اسی Hubble Tension کو حل کرنے کے لیے جیمز ویب کے ڈیٹا کو استعمال کیا اور اوپر بیان کیے گئے 4 طریقوں میں ایک (CMB) کو چھوڑ کر 3 طریقوں سے ہبل کانسٹینٹ کی ویلیو نکالی۔

جیمز ویب چونکہ انفراریڈ میں مشاہدہ کرنے کے لیے مخصوص ہے اس لیے یہاں دو نئے قسم کے ستاروں یا ان کی زندگی کے مخصوص مراحل پر بات کریں گے۔ سورج جیسا ستارہ جب اپنی زندگی کے اختتام پر ہوتا ہے اور کور کے اندر ہائیڈروجن کا فیوژن تقریباً ختم ہو جاتا ہے اور تو کور کے باہر شیل میں موجود ہائیڈروجن کا فیوژن شروع ہوتا ہے۔ کور میں موجود ہیلئم کا فیوژن شروع ہو جاتا ہے اس مرحلے میں ستارہ پھول کر سرخ ہو جاتا ہے۔ اس کو Red Giant Branch کہتے ہیں۔ اس برانچ کے آخری سرے پر اس ستارے کی چمک اس ستارے میں موجود عناصر یا اس کی کمیت پر منحصر نہیں ہوتی ایسے نقطہ کو

Tip of the Red Giant Branch (TRGB)

کہتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جو کائنات میں فاصلے ماپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ستاروں کی زندگی کے اس مرحلے کو جیمز ویب نے انفراریڈ میں دیکھا اور انتہائی مفید ڈیٹا فراہم کیا۔

دوسرا مرحلہ جس کا مشاہدہ کرکے جیمز ویب نے ڈیٹا حاصل کیا وہ

J-region Asymptotic Giant Branch

ہے۔ یہ مرحلہ سورج کی کمیت رکھنے والے ستاروں میں TRGB کے بعد آتا ہے اور اس میں کور زیادہ تر کاربن اور آکسیجن پر مشتمل ہوتی ہے، ایسے ستاروں کو کاربن ستارے بھی کہا جاتا ہے۔ شیل میں ہیلیئم اور ہائیڈروجن کا الگ الگ فیوژن ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ انتہائی روشن ستارے ہوتے ہیں۔ ان JAGB ستاروں کو انفرادی طور پر کائنات میں فاصلے ماپنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ باقی طریقوں سے نسبتاً نیا طریقہ ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ متغیر ستاروں اور TRGBs کے مقابلے میں کم وقت میں زیادہ دور کے فاصلے ماپے جا سکتے ہیں۔ جیمز ویب کے لیے یہ ایک اچھا ٹارگٹ ہیں جس سے ڈیٹا حاصل کرکے ہبل کانسٹینٹ کی نئی مقدار نکالی گئی ہے۔

اب جیمز ویب کے ڈیٹا پر کی گئی تحقیق پر بات کرتے ہیں۔ ہبل کانسٹینٹ کی مقدار

Planck Mission: 67.4 ± 0.5

JAGB (Webb): 67.96 ± 1.71

TRGB (Webb): 69.85 ± 1.75

Cepheids (Webb): 72.05 ± 1.86

Cepheids (Hubble): 73.0 ± 1.0

یہاں پر (Webb) کا ڈیٹا پہلے سے موجود دو مقداروں کے درمیان میں آیا ہے۔ اس سے ایک بات یہ واضح ہوتی ہے کہ کائنات کا سٹینڈرڈ ماڈل ابھی تک درست ثابت ہو رہا ہے دوسری طرف یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ اگر متغیر ستاروں سے فاصلوں کی پیمائش میں کچھ مسائل ہیں اور یہ مزید نیچے آ جاتا ہے تو "ہبل ٹینشن" کی دو مختلف مقداروں کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو فلکیات کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ جیمز ویب اگر یہ کمال کر دیتی ہے تو سمجھو اس کے پیسے پورے ہوگئے اور اکیسویں صدی کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔

دوسری طرف بات یہ بھی ہے کہ اگر جیمز ویب CMB والے طریقے کی مقدار کو غلط ثابت کردیتی ہے تو اس سے اس کائنات کا سب سے زیادہ مانا جانے والا CDM ماڈل مشکوک ہوجائے گا۔

ابھی تو شروعات ہے، دیکھتے ہیں کہ جیمز ویب کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

About Saqib Ali

Saqib Ali is a writer and Research enthusiast in Astronomy, Cyber security, and Information Technology.
FaceBook: facebook.com/AstroSaqi
YouTube: Youtube.com/@astrosaqi

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer