Chaand Ki Mitti
چاند کی مٹی

چاند کی مٹی بہت خطرناک ہے۔ کیا یہ زہریلی ہے؟ یا اس میں کوئی خطرناک کیمیکل ہے؟ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے لیکن یہ اس لیے خطرناک ہے کیونکہ اس میں تابکاری کے اثرات ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ چپکتی ہے۔ یہ اس لیے چپکتی ہے کیونکہ یہ الیکٹروسٹیٹک (electrostatic) ہے یعنی اس پر چارج ہوتا ہے۔
چاند کی مٹی کا خلائی ایجنسیوں نے کیا حل نکالا ہے؟
حال ہی میں ایک نجی کمپنی کی طرف سے چاند پر بھیجا گیا لینڈر (Blue Ghost) اپنے ساتھ ناسا کے بہت سارے تجرباتی آلات لے کر گیا تھا جن میں سے کچھ پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ ان میں سے ایک Electrodynamic Shield بھی ہے، تو آج اس EDS کی بات کرتے ہیں۔
دو پلیٹیں ہیں جن میں سے ایک تو Thermal Radiator ہے اور دوسرا Glass ہے اب یہ ایسے آلات ہیں جو چاند پر بیرونی ماحول میں کھلے ہوتے ہیں یعنی چاند کی گرد ان کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔
ان سطحوں پر EDS کے ساتھ اور اس کے بغیر چاند کی مٹی چپکنے کا تجربہ کیا گیا تو EDS کے ساتھ والی سطح پر مٹی نہ ہونے کے برابر باقی رہی اور یہ ایک خوش آئند بات ہے جس کا چاند اور مریخ پر جانے والے مشنوں میں بہت فائدہ ہونے والا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی اصل میں اس چارج رکھنے والی مٹی کو ہائی وولٹیج AC کرنٹ سے بنائی گئی ایک تبدیل ہوتی ہوئی الیکٹرک فیلڈ والی سطح فراہم کرتی ہے۔ ان سطحوں پر بہت سارے چھوٹے الیکٹروڈ استعمال ہوئے ہیں جس سے یہ متغیر ہائی وولٹیج اے سی کرنٹ اور فریکوئنسی ایک travelling electric field پیدا کرتی ہے جو اس گرد کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے اور سطح سے ہٹا دیتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا کانسیپٹ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ 60 کی دہائی میں یہ Electrostatic Curtain کے نام سے تحقیق میں شامل رہا ہے۔ مزید تحقیق کے لیے آپ Dielectrophoresis کو سٹڈہ کرسکتے ہیں۔
ایسا تجربہ چاند پر لمبے عرصہ کے مشنوں میں خلابازوں کے لباس پر خاص طور پر پاؤں والی جگہوں پر استعمال ہونے والے کینوس پر کیا جائے تو چاند کی مٹی کو چاند پر بنائے گئے ٹھکانوں کے اندر جانے سے روکا جاسکتا ہے۔ یہ مٹی اگر ان ٹھکانوں میں جائے گی تو الیکٹرونکس اور اندرونی آلات میں چپک کر نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
چاند پر موجود مٹی پر شمسی ہواؤں اور چارج شدہ ذرات کے براہ راست ٹکرانے سے ان پر الیکٹروسٹیٹک چارج جمع ہوجاتا ہے اور تابکاری کے اثرات بھی زمین سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
چاند پر ایسا تجربہ پہلی بار کیا گیا ہے لیکن کئی سالوں سے ایسے EDS ٹیکنالوجی کے تجربات عالمی خلائی اسٹیشن پر کیے جاتے رہے ہیں۔

