Selab Ki Tabah Kariyan Aur Hamari Zimme Dariyan
سیلاب کی تباہ کاریاں اور ہماری ذمہ داریاں
ماحولیاتی تبدیلی (گلوبل وارمنگ) کے اثرات پچھلے ایک دہائی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ سمندری طوفان، قحط سالی، ہیٹ ویو، شدید بارشیں اور سیلاب ہر خطے میں اپنی تباہ کاریاں پھیلا رہے ہیں۔ پچھلے کئی دہائیوں سے ترقی یافتہ ممالک کے سائنسدان مسلسل ایسے سانحات کے رونما ہونے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ اسی لئے ان ممالک نے تیسری دنیا کے مقابلے میں اس صورتحال سے نبٹنے کے لئے اپنی حکمت عملی کو موزوں بنایا۔
لیکن پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں اس موضوع کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور ہمیشہ ایسی قدرتی آفات کو گناہوں یا اعمال کا نتیجہ قرار دے کر راہ فرار اختیار کی۔ لیکن اب ہم سب اس کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ آج اگر ہم کچھ لوگ محفوظ ہیں تو جلد ایسے حالات و خطرات ہمارے دروازوں پر بھی دستک دے رہے ہوں گے۔ اس سال پاکستان میں مون سون اپنے وقت سے پہلے شروع ہوا اور ابھی تک اس کی تباہی جاری ہے۔
خصوصاً بلوچستان، سندھ، سرائیکی وسیب اور خیبر پختونخوا میں سیلاب نے تباہی اور بربادی کی نئی داستان رقم کردی ہے اور المیہ یہ ہے کہ یہ سلسلہ ابھی رکتا نظر نہیں آ رہا ہے بلکہ ستمبر میں مزید بارشیں ہونے سے سیلابی کیفیت ابتر ہونے کا اندیشہ ہے ان حالیہ سیلاب سے ہر ذی روح بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اب تک ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے مصدقہ ذرائع کے مطابق تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ یہ کروڑوں متاثرین چاروں جانب پانی میں ڈوبے اور کھلے آسمان تلے بے سرو سامانی کی حالت میں امداد اور داد رسی کی آس لئے بیٹھے ہیں۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن پسماندگی میں سرفہرست ہے۔ سندھ کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ اسی لئے سب سے زیادہ سیلاب کی تباہ کاریاں ان دونوں صوبوں کا مقدر ٹھہری ہیں۔ بلوچستان کی نوے فیصد آبادی، سندھ کی پچاس فیصد، اور سرائیکی وسیب کی تیس سے پینتیس فیصد آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ ان صوبوں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلا والا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ مون سون کی بارشوں سے بلوچستان کے چونتیس اضلاع بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
جعفر آباد، نصیر آباد، جھل مگسی کشمور، آواران، صحبت پور، قلعہ عبداللہ اور قلعہ سیف اللہ کے تمام دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ نوشکی، ژوب اور کوئٹہ شہر کے بھی نشیبی علاقے زیر آب آ گئے ہیں۔ سندھ میں چوبیس اضلاع کو کراچی کے کچھ علاقوں سمیت آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔ ہزاروں گاؤں سیلابی پانی میں ایسے بہہ گئے جیسے کبھی ان کا وجود ہی نا تھا۔ جبکہ سرائیکی وسیب کے تین اضلاع ڈیرہ غازی خان، تونسہ شریف اور راجن پور شدید سیلاب کی زد میں ہیں۔
پوری پوری بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئی ہیں۔ کئی شہروں میں بھی گھروں اور بازاروں میں سیلابی پانی نے داخل ہو کر تباہی پھیلا دی ہے۔ اب تک ایک اندازے کے مطابق مذکورہ بالا علاقوں میں ہزاروں اموات ہو چکی ہیں لیکن حالات ہر جگہ اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہیں جس کا تصور محفوظ مقامات میں رہنے والے قطعی نہیں لگا سکتے۔ بلوچستان، سندھ اور سرائیکی بیلٹ کے دیہی علاقے غربت کے باعث مٹی کے گھروں پر مشتمل ہیں اور ان کے روزگار کا سارا دار و مدار کاشت کاری اور مال مویشی پر ہے۔
سیلاب نے نا صرف ان کے لاکھوں مٹی کے گھروں کو روند ڈالا بلکہ ان کے مویشیوں کو بھی بہا لے گیا۔ لاکھوں ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں ہیں۔ 2010 کے سیلاب کی تباہی کے اثرات ابھی تک زائل نہیں ہوئے تھے کہ یہ قدرتی آفت ٹوٹ پڑی۔ 2005 کے بعد صرف بلوچستان میں 100 ڈیم بنائے گئے تھے جن میں سے اب تک 23 ڈیمز ناقص میٹریل کی وجہ سے ٹوٹ گئے ہیں اور ان کا پانی بھی شہروں اور دیہاتوں میں داخل ہوگیا جس کی وجہ سے حالات مزید سنگین ہو گئے ہیں۔
کوہ سلیمان کی حدیں چونکہ تینوں صوبوں بلوچستان، جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاوہ کے پی کے کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی ملتی ہے اس لئے وہاں پر ہونے والی طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے ان سارے صوبوں کے تمام دیہاتوں میں تباہی مچا دی ہے اور برساتی ندی نالوں میں طغیانی سے سڑکیں، پل اور بڑے حفاظتی بند بھی ٹوٹ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان کئی گنا زیادہ ہوگیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے مقتدر ادارے اس صورتحال سے نمٹنے میں کیونکر اتنے ناکام رہے ہیں؟ 2010 کے سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھنے کے باوجود ہماری حکومتیں اور ادارے کیوں نہیں پیشگی حکمت عملی اختیار کر سکے؟ اس وقت بھی سیلاب سے متاثرہ اندرونی علاقوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اسکول، اسپتال سب ٹوٹ چکے ہیں۔ کئی سال سے مقامی انتظامیہ انٹرنیشنل اور لوکل این جی اوز کو کام کرنے میں مشکلات کا شکار کرتی رہی ہیں اور اب اس آفت کی گھڑی میں ان سے امداد کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ این جی اوز اپنے طور امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں لیکن حکومتی سطح پر کوئی مضبوط اقدام اب تک نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ ان قدرتی آفات اور تباہی سے مکمل بچاؤ شاید کہیں بھی ممکن نہیں لیکن کچھ اقدامات ان تباہیوں کی شدت اور نقصانات کو کم ضرور کر سکتے تھے جن میں کچھ کا ذکر ضروری ہے۔
واٹر مینیجمنٹ سیلابی پانی کی آمد اور نکاسی کو قابو میں کرنے کا ایک طریقہ کار ہے جس میں دریاؤں کو گہرا کیا جاتا ہے، دریاؤں کے کناروں پر مضبوط بند اور پشتے بنائے جاتے ہیں، ندی نالوں کی ہر کچھ عرصے بعد صفائی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے سیلابی پانی شہروں اور دیہاتوں میں داخل نہیں ہو پاتا۔ ہمارے ہاں بند، پشتے، پل اور ڈیم بنائے تو جاتے ہیں لیکن جو اداروں کو یہ بنانے کا ٹھیکہ ملتا ہے وہ سستا اور ناقص مال استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے آبادیاں تباہ و برباد اور انسانی جانیں مزید ضائع ہو جاتی ہیں۔
بارشیں چونکہ پورا سال نہیں ہوتی اور ندی نالے اور دریا اکثر خشک ہو جاتے ہیں اور اس پر لوگوں کی آمدورفت معمول کی بات ہو جاتی ہے اور انتظامیہ پل بنانے کے زحمت گوارا نہیں کرتے جس کے نتیجے میں سیلابی ریلا گاڑیوں سمیت قیمتی جانوں کو بھی بہا لے جاتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے سنگین نتائج پاکستان جیسے غریب اور پسماندہ ملکوں میں واضح دیکھے جا سکتے ہیں اس لئے یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں کہ اس تباہی کی بہت بڑی وجہ عوام کی غربت سے مشروط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ نقصان بلوچستان، سندھ اور پھر جنوبی پنجاب میں ہوا ہے۔ خاص طور سے مذکورہ بالا دونوں صوبوں کی بڑی آبادی کے پاس پکے مکان تک میسر نا تھے جس کی وجہ سے پہلی ہی سیلاب کی لہر ان کا سب کچھ بہا لے گئی۔ اگر وہ مکانات آر سی سی کے بنے ہوتے تو کم از کم خاندان اپنے مویشیوں سمیت سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لئے پکی چھتوں پر ہی ڈیرہ ڈال لیتے کیونکہ آر سی سی کے بنے مکانات مضبوط ہونے کی بنا پر سیلابی پانی کو سہ لیتے ہیں۔
ایسی قدرتی آفات میں صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کی نا اہلی بھی کھل کر واضح ہو جاتی ہے۔ ان آفات سے نمٹنے کے لئے جن جدید مشینری اور وسائل کی ضرورت ہوتی ہے وہ پاکستان کے بڑے شہروں کو میسر نہیں تو چہ جائے کہ ہمارے غریب صوبوں کے نصیب میں ہوں گی۔ تہذیب یافتہ دنیا کے ملک ایسے حادثات کی روک تھام کے لئے اپنے بجٹ میں مخصوص رقم مختص کرتے ہیں اور اب پاکستان کو بھی اسی ڈگر پر چلنا ہوگا۔
اپنے غیر پیداواری اخراجات کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا ہوں گے۔ اپنے ہمسایہ ممالک سے دوستی کے رشتے استوار کرنے ہوں گے۔ کیونکہ یہ قدرتی آفات اب ہر سال مزید تباہیوں کا باعث ہوں گی اس لئے اب یہ وقت ایمرجنسی بنیادوں پر موثر حکمت عملی اپنانے کا ہے کیونکہ ہم تباہی اور بربادی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
اس وقت سب کو مل کر سیلاب متاثرین کی دل کھول کر مدد کرنی چاہیے۔ سیلاب میں متاثرین کی آدھی تعداد خواتین پر مشتمل ہے ایسے حالات میں ان کے قدرتی ماہانہ مسائل کے لئے بھی سینیٹری پیڈز دیگر امدادی سامان کے ساتھ ضرور شامل کریں۔
آنے والا کل ہمارے ملک میں مزید مشکلات لے کر آنے والا ہے جب ملک میں فصلوں کے تباہ ہونے اور مویشیوں اور جانوروں کے سیلاب کی نذر ہو جانے سے غذائی قلت پیدا ہوگی اور مہنگائی کا ایک ہوشربا طوفان آئے گا۔ ایسے وقت میں حکومت وقت اور ہمارے مقتدرہ اداروں کو اپنے بجٹ پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔