Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sanober Nazir
  4. Aik Wo Hain Ke Jinhe Tasveer Bana Aati Hai (2)

Aik Wo Hain Ke Jinhe Tasveer Bana Aati Hai (2)

ایک وہ ہیں کہ جنھیں تصویر بنا آتی ہے (2)

1874 میں پیرس میں چند رد کیے ہوئے نوجوان مصوروں کے ایک گروپ نے امپریشن ازم کی تحریک شروع کی جن میں ایدوارد مانے پال "سیزن ڈیگا، رینووا، پسارو اور" کلود مونے "قابل ذکر ہیں۔

امپریشن ازم کی مصوری میں رنگوں کی آمیزش اور کالے رنگ سے اجتناب واضح نظر آتا ہے۔ موٹے اور چھوٹے برش اسٹروکس کا استعمال اور روزمرہ کی آؤٹ ڈور پینٹنگس اس تحریک کی خاصیت ہیں۔

مونے کی مشہور زمانہ تصویر امپریشن سن رائس کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک نقاد نے ان مصوروں کو امپریشنسٹس کا لقب دیا۔ اس آرٹ میں مجموعی اثر پر زور دیا جاتا ہے نا کہ تفصیل بیان کی جائے۔ صرف منظر کی تصویر کشی کی جائے چہ جائیکہ منظر کی تفصیلا خوبصورتی کو اجاگر کیا جائے۔

کلود مونے اور رینووا اس گروپ کے وہ مصور تھے جو آخری دم تک امپریشن ازم کے نمائندہ رہے اور اس فن کو اپنے عروج پر پہنچایا۔ مونے نے امپریشن ازم میں لینڈ اسکیپ اور رینووا نے انسانی فگرز کو اپنا موضوع بنایا۔

جبکہ "ایڈوارڈ مانے کے کام نے بھی امپریشن ازم پر اپنے نقوش ثبت کیے۔ مانے نے قدرتی مناظر کی بھرپور منظر کشی کی۔ اس کی نامانوس اور ادھورے نظر آتے مناظر نے روایتی نظریات کو شکست دے دی۔

رینووا اور ایڈگار ڈیگا نے عورتوں کی بے ساختگی سے بھرپور برہنہ تصاویر بنائیں جو اس سے قبل کسی مصور نے نہیں بنائیں تھیں۔ اسی لیے نقادوں نے اس آرٹ کو ایبسٹریکت ایکسپریس ازم کا نام دیا۔

پوسٹ امپریشن ازم آرٹ کی ایک قسم پوائنٹلزم سے متاثر ایک تحریک تھی۔ پال سیزاں کو اس تحریک کا بانی کہا جاتا ہے۔ The Card Players اس کی بہترین پینٹنگز میں شمار ہوتی ہے۔ بظاہر تو یہ امپریشن ازم کا تسلسل تھا لیکن کچھ عناصر ایک دوسرے کی ضد بھی تھے۔

"جارج سورا" کی Bathers at The Sunday اور Ansieres Afternoon نے اس تحریک میں ایک نئی روح پھونکی۔

جارج سورا کا شمار پوسٹ امپریشن ازم کے مایہ ناز مصوروں میں کیا جاتا ہے۔ اس تحریک میں نمایاں اور ناقابل فراموش مصور "وین گوغ" تھا جبکہ اس کے ہم عصروں میں گوگاں کا نام بھی نمایاں مقام رکھتا ہے۔

وین گوغ کی "The Starry Night" اور پال گوگاں کی The Siesta اس آرٹ کی نمایاں پینٹنگز میں شمار ہوتی ہیں۔ اس تحریک کے مصوروں نے امپریشن ازم کی طرح اپنے فن کو محدود نہیں کیا بلک ڈرائنگ اور کئی تکنیکی پابندیوں سے آرٹ کو آزاد کیا۔

ان مصوروں نے گہرے رنگ اور بڑے اسٹروکس کا استعمال خوب کیا۔

دراصل پوست امپریشن ازم کی خصوصیات تین ایسے مصوروں سے ملتی ہیں جنھوں نے آرٹ کی کئی قسموں میں تصاویر بنائیں۔ ان میں پال سیزان گوگاں اور وین گوغ شامل ہیں۔ یہ تحریک پوائنٹلزم نیو ازم، امپریشن ازم کی ایک ماڈرن شکل تھی۔

لیکن اس تیکنیک کو چند ہی مصور اس مہارت سے اپنی مصوری میں استعمال کر سکے جو جان سورا کا خاصہ تھی۔ ان میں وینگوغ اور گوگاں شامل تھے۔

ایکس پریشن ازم کی اصطلاح ڈرامہ، ادب اور ویوزول آرٹ میں کثرت سے استعمال ہوئی۔ بیسوی صدی میں ہی اس تحریک کا آغاز پوسٹ امپریشن ازم سے بغاوت کے نتیجے میں ہوا۔ اس آرٹ میں مصوروں نے سطحی نقش کے ساتھ ساتھ جذبات کو بھی اپنی تصاویر میں نمایاں جگہ دینی شروع کی۔ اسی بنا پر لوگوں نے اس آرٹ کو ایکسپریشن ازم کا نام دیا۔

اس تحریک کے مصوروں نے وین گوغ اور گوگاں کے انداز مصوری کو فروغ دیا۔ جبکہ جیمز اینسور اور ایدوارد مونک علامتی طور پر سمبولزم کی جانب جھکاؤ رکھنے کے باوجود ایکسپریشن ازم کے پیشوا کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ خصوصاً ایدوارد مونک کی The Scream سمبولزم اور ایکسپریش ازم کا شاہکار مانی جاتی ہے۔ ایکپریشن ازم کے بارے میں مختلف نقادوں کی مختلف آراء ہیں۔

یورپ کے نقاد وین گوغ کو اس آرٹ کا بانی مانتے ہیں کہ جس طرح اس نے رنگوں اور لائنوں کو جذباتی انداز سے کینوس پر منتقل کیا وہ کسی اور مصور کے کام میں نظر نہیں آتا۔

وین گوغ ہالینڈ کا باسی تھا۔ ابتدا میں اپنی ہم عصروں گوگاں اور سیزان کے ساتھ پوسٹ امپریشن ازم کا آرٹسٹ رہا۔

پھر اس نے اپنے رنگوں کو سمبولزم آرٹ میں سمویا۔ اسی دوران وہ نشے کا عادی ہوگیا لیکن ساتھ ساتھ اس کے اسٹروکس اور برش آزادی کے ساتھ رنگوں اور جذبات سے کھیلنے لگے اور وہ ایکسپریشنسٹ آرٹس میں سب سے نمایاں ہوگیا۔ بطور مصور اس نے صرف دس سال مصوری کی اور 800 تصاویر بنائیں اور صرف ایک بیچی۔

گوگاں اور وہ آخر تک اچھے دوست رہے لیکن مسلسل غربت نے وین گوغ کو چڑچڑا کر دیا تھا۔ اسی اداسی میں اس نے اپنا ایک کان کاٹ ڈالا کیونکہ اسے ہر لمحہ اپنے کان میں سیٹیاں بجتی سنائی دیتی تھیں۔ آخرکار اس نے گولی مار کر خودکشی کر لی اور ایک عظیم باب کا اختتام ہوا۔ وین گوغ کو کسی ایک تحریک سے نتھی کرنا ممکن نہیں۔

عینا مولکا احمد جرمن ایکسپریشنسٹ کی پیروکار پاکستانی مصورہ رہی ہیں۔ وہ ایدوارد مونک اور وین گوغ سے بے حد متاثر تھیں اور ان دونوں کے آرٹ کی انھوں نے پیروی کی۔

بیسویں صدی کی جتنی بھی مصوری کی تحاریک شروع ہوئیں ان میں"کیوب ازم" کو ایک منفرد مقام ملا۔ کیوب ازم ایبسٹ ریکٹآرٹ کی ابتدا کرنے والی تحریک کا در جہ رکھتی ہے۔

پیبلو پکاسو کیوب ازم کا تخلیق کار تھا بعد ازاں جارج براق کو بھی اس تحریک کا بانی ہونے کا درجہ دیا گیا۔ براق اور پکاسو پالسیز ان سے متاثر تھے۔

کیوب ازم دراصل ان دونوں کی نظر میں ریلزم کی ایک شکل تھی۔ دونوں مصوروں نے سنگل ویو پوائنٹ کے نظریہ سے انحراف کرتے ہوئے دوہری حجم (Tow dimensional) والی سطح پر تہری حجم (Three dimensional) والی اشیاء کو کینوس کی زینت بنایا۔ پاکستان کیوب ازم آرٹ میں شاکر علی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ستر کی دہائی میں جمیل نقش اور ظہور الحق نے کیوب ازم اور ایبسٹریکٹ آرٹ کو مزید آگے بڑھایا۔

اسی دوران پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہی نے پوری دنیا کی نفسیات کو یک دم بدل کر رکھ دیا۔ اس کے اثرات مصوری میں واضح نظر آئے اور آرٹ کی ایک منفرد تحریک سوریلزم کا جنم ہوا۔ بظاہر یہ ڈاڈا ازم سے متاثر دکھائی دی لیکن جلد اس تحریک کے مصوروں نے اس آرٹ کو ایک نیا رخ دیا۔

یہ تحریک اس بربادی کے خلاف تھی جو ریشنلزم کی پیداوار تھی۔ یہ آرٹ کی وہ صنف ہے جو ہوش مندی، با خبری کو غفلت اور بے ہوشی سے ملاتی ہے۔ یعنی خواب کو حقیقت سے اور شعور کو لاشعور سے جوڑ دیا گیا۔

سوریلسٹ مصوروں نے سگمنڈ فرائیڈ کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا۔ سلواڈور ڈالی اور ڈیلوو اس تحریک کے مایہ ناز مصور ہیں جن کی پینٹنگز لوگوں کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ کئی تصاویر کو دیکھ کر خواب کا گماں ہوتا ہے۔

اسپین سے تعلق رکھنے والا سلواڈور ڈالی ایک سوریلسٹ مصور ہونے کے ساتھ ساتھ مجسمہ ساز، فلم ساز، سیٹ ڈزائنر، پرنٹ میکر اور پرفامنگ آرٹسٹ بھی تھا۔ ڈالی کی "The persistent of memory" آج بھی آرٹ کے شیدائیوں کی ہر دل عزیز پینٹنگز میں شمار ہوتی ہے۔ پاکستان میں صادقین کے بعد شرجیل ظفر شکیل سیگل سوریلزم کے اچھے مصور مانے جاتے ہیں۔

فنون لطیفہ میں مصوری ایک ایسی صنف ہے جو صدیوں سے انسان کو محظوظ کرتی آئی ہے۔ یہ اظہار رائے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ مغرب میں آج بھی کئی آرٹ کی تحریکیں زوروں پر ہیں اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور چلنا بھی چاہیے کیونکہ ایسی تحریکیں ہمارے جیسے معاشروں کے لیے بھی باعث تقلید ہوتی ہیں۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib