Aik Wo Hain Ke Jinhe Tasveer Bana Aati Hai (1)
ایک وہ ہیں کہ جنھیں تصویر بنا آتی ہے (1)
کہتے ہیں کہ یورپ کا رومانس سر چڑھ کر بولتا ہے۔ چاہے وہ فن تعمیرات ہو یا مصوری، چرچ ہوں یا بازار، اوپرا ہاؤس ہو یا شراب خانے ہر شے اپنے اندر پوری تاریخ سموئے ہوئے نظر آتی ہے۔ مغرب آج اس مقام پر کئی انقلابات سے گزر کر پہنچا ہے۔ صرف مصوری کی ہی بات کی جائے تو کتنی تحریکیں اس خطے میں ظہور پذیر ہوئیں جن کے دور رس اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوئے۔ ہر آرٹ کی ہر تحریک کے پیچھے بھی ایک نظریہ اور تنقیدی سوچ کار فرما رہی ہے۔
چھٹی صدی عیسوی سے چودھویں صدی کے وسط تک مغرب میں یکسانیت سے بھرپور بازنطینی آرٹ کا دور رہا۔ یہ فن اسلوب مذہب کی ترویج کی حد تک محدود رہا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فن مصوری سے لے کر فن تعمیر تک اس آرٹ میں کوئی تنوع نظر نہیں آتا۔ بحیرہ روم سے منسلک یورپ کے ممالک میں ترکیہ سے یونان اور سربیا سے روس تک بازنطینی آرٹ ہمیں اس دور کے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ اس آرٹ کی بہترین مثال استنبول کی آیا صوفیا اور اٹلی میں سینٹ مارک باسیلیکا کا چرچ ہیں۔
لیکن اٹلی ہی کے شہر فلورنس نے اس جمود اور یکسانیت کو نشاۃ ثانیہ جیسی تحریک کے ذریعے نا صرف توڑا بلکہ رومن کیتھولک چرچ پر ایک کاری ضرب بھی لگائی۔ جس طرح آج ہمارے ملک پر مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی چھائی ہوئی ہے مغرب پر بھی عرصہ دراز تک ایسے ہی مذہبی فرمانرواؤں نے انسانی اقدار کی تذلیل کی۔ نشاۃ ثانیہ انسان دوستی کی تحریک تھی جس نے ہیومن ازم کو فروغ دیا۔ 1453 کو قسطنطنیہ (آج کا ترکیہ) کے زوال اور اٹلی میں نشاط ثانیہ کا عروج کا دور کہا جاتا ہے۔
بھانت بھانت کے اہل علم و دانش نے اٹلی کو اپنی آماج گاہ بنایا اور اپنے ساتھ لائے ہوئے علوم کا پرچار شروع کیا۔ کچھ ہی عرصے میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ نشاۃ ثانیہ نے انسانی اہمیت اور وقار کو سابقہ دور کی توبہ اور اعتراف گناہ جیسی مذہبی اقدار پر ترجیح دی۔
نشاۃ ثانیہ نے انسانی دماغ کو مذہبی علوم سے نکال کر دوسرے علوم کی جانب راغب کیا۔ اسی عہد میں چھاپہ خانہ کی ایجاد نے خواندگی کا گراف بھی تیزی سے بڑھا دیا جو اپنے آپ میں ایک انقلاب تھا۔
نشاۃ ثانیہ سے فنون لطیفہ سب سے زیادہ متاثر ہوا بالخصوص مصوری کو ایک علم کا درجہ حاصل ہوا۔ نشاۃ ثانیہ کے بعد مغرب میں آرٹ اور مصوری کی ان گنت تحریکوں کا جنم ہوا۔ نشاۃ ثانیہ کے عروج کے زمانے کئی مایہ ناز مصوروں کا جنم ہوا جنھوں نے پرانے اور بوسیدہ تصورات کو یکسر بدل کر دنیا کو حقیقتوں کی نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ مینر ازم نشاۃ ثانیہ کے عروج کی تحریک گردانی جاتی ہے۔
اس میں سب سے نمایاں اور ناقابل فراموش لیونارڈو ڈاونچی کا نام ہے جس کی دنیا میں آج بھی دھوم ہے۔ ڈاونچی صرف مصور نہیں تھا بلکہ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھا۔
ڈاونچی نے نا صرف مصوری میں اپنا سکہ جمایا بلکہ وہ مجسمہ سازی، سائنس، نقشہ نگاری، علم العضاء، علم فلکیات، علم نباتات، نظریہ دانی، انجینئرنگ، تعمیرات اور قدیم زمانے کے جانوروں کے بارے میں علم میں بھی فن کمال رکھتا تھا۔
مونا لیزا اور لاسٹ سپر کو ہر خاص و عام آج بھی سراہتا ہے۔ ایک انسان میں اتنے علوم میں مہارت قدرت کا معجزہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسے معجزات رونما ہونے کے لیے بھی نشاۃ ثانیہ جیسے سازگار ماحول کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ڈاونچی کے ہی ہم عصر لیکن کم عمر مصور اور مجسمہ نگار مائیکل انجیلو کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ کم عمری سے ہی مائیکل سنگ مرمر کی بڑی بڑی سلوں کو دیکھ کر اپنے مجسموں کی پیش گوئی کر دیتا تھا کہ یہ فلاں ہوگا۔
" ڈیوڈ" کا معرکتہ اعلی مجسمہ اسی پیش گوئی کا ہی شاہکار ہے جو اس نے ایک سنگ مرمر کی ایک سل کو دیکھ کر کی تھی کہ "یہ ڈیوڈ ہے" ڈیوڈ کا مجسمہ کلاسی ازم کی واضح مثال ہے جس میں انسان کی عظمت اور خوبصورتی کو سراہا گیا۔ اٹلی کی مشہور زمانہ سسٹین چیپل سیلنگ ہائی نشاۃ ثانیہ پیریڈ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پہلی بار خدا اور انسان کے تعلق کو مائیکل انجیلو نے ایک کلیسا کی چھت پر اپنے فن اور رنگوں کے امتزاج سے نمایاں کیا۔ یہ تصاویر مذہب کے ٹھیکیداروں کی مذہب پر اجارہ داری پرایک کاری وار تھا۔ ان کا ہی ہم عصر "رافیل" کا سب سے بڑا شاہکار "دی اسکول آف ایتھنز" کی پینٹنگ ہے۔ مینر ازم 1520 سے شروع ہوئی اس تحریک میں مصوروں نے انسانی ساخت کو غیر ضروری طور پر خوبصورت بنانے پر توجہ مرکوز کی۔
مینر ازم سولہویں صدی کے آخر میں بیروق آرٹ میں تبدیل ہوگئی اور اٹھارہویں صدی تک یہ اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ بیروق آرٹ کی تحریک مختلف اور پیچیدہ طرز کی مصوری پر مبنی تھی۔ چونکہ فن یک اسلوبی یا مینر ازم غیر موثر ہو رہا تھا تو کیتھولک چرچ نے عوام کو دین کی جانب راغب کرنے والے اس آرٹ کو سراہنا اور سرپرستی شروع کردی۔
جب بیروق آرٹ کو روحانی اور مذہبی جذبات کی عکاسی کے لیے استعمال کیا جانے لگا تو فرانس کے دو مصور بھائیوں لانین اور جارجڈی لاٹوز نے اسی دوران متوسط طبقے کو حقیقت پر مبنی آرٹ کی جانب راغب کیا۔
"نیوکلاسی ازم" کلاسی ازم کا تسلسل کہا جاسکتا ہے اس تحریک کے مصوروں کے فن میں سادگی اور جدت کا عنصر غالب تھا۔ اینٹون رافیل میننگس اس تحریک کا مشہور مصور گزرا ہے۔
فرانس میں ہی "روکوکو" آرٹ سترہویں صدی میں شروع ہوئی۔ جس نے بیروق آرٹ کے بوجھل پن کو کم کیا اور اپنی لطافت اور خوش مزاجی کے باعث جلد عوام میں مقبول ہوئی۔ روکوکو آرٹ کا سب سے بڑا مصور واٹو کو مانا جاتا ہے۔ 1740 میں پری رومانٹٹیسزم کی تحریک کو بلاشبہ ایک ثقافتی تحریک کہا جاسکتا ہے۔ اس تحریک میں عوام کی سوچ میں ایک نمایاں تبدیلی آئی۔ ایک نیا طبقہ جسے عام طور پر مڈل کلاس کہا جاتا ہے ابھر کر آیا اور اس نے امیرانہ ٹھاٹ باٹ شان و شوکت اور دبدبہ پر مبنی آرٹ اور مصوری کو یکسر مسترد کر دیا۔ اس تحریک کا بانی فرانسیسی دانشور ژاں ژوک روسو تھا۔
پری رومینٹیسزم کا آرٹ متوسط اور ادنی طبقہ باآسانی سراہ سکتا تھا کیونکہ اس میں قدرتی مناظر اور جذبات کی بے ساختگی نمایاں تھی۔
انیسویں صدی میں یورپ کو "رومینٹیسزم" نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر یہ ایک ایسی تحریک تھی جس نے ان تحریکوں کو بھی اپنے اندر سمو لیا جو دوسری سمت اختیار کر رہی تھیں۔
رومانیت کی تحریک کے مصور زیادہ آزاد اور حقیقت پسند ہو گئے کیونکہ امراء کی آرٹ پر اجارہ داری کم ہو چکی تھی رومینٹیسزم میں جذبات نگاری اور سرمسرتی پر زور دیا گیا۔ اسی دور میں گوتھک ناول، لینڈ اسکیپس باغات اور رومانوی شاعری کو بھی عروج حاصل ہوا۔ یورپ کے ساتھ امریکہ میں بھی اس تحریک نے ایک نئی سوچ کی لہر دوڑا دی۔
وکٹر ہیوگو پشکن اور شیکسپئر اس تحریک کے لیے بے حد معاون ثابت ہوئے۔ ٹرنر اور کانسٹیبل رومانوی تحریک لکے نم ائندہ مصور جانے جاتے ہیں۔
ٹرنر کی "Dutch Boats in a Gale" جان کانسٹیبل کی Dedham lock and Mill جبکہ ڈیلاکرویا کی The Death of Sardanapalus رومینٹیسزم آرٹ کا شاہکار ہیں۔ پاکستان کے ابتدائی سال میں دو بڑے مصور استاد اللہ بخش اور عبدالرحمن چغتائی کے نام قابل ذکر ہیں۔ جنھوں نے رومینٹیسزم آرٹ کی پاکستان میں بنیاد رکھی۔ ذوالفقار علی زلفی آج کل اس آرٹ کے جانے مانے مصور ہیں۔
ریلزم آرٹ کو اینٹی رومانٹک ازم بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس تحریک سے وابستہ مصوروں نے انسانی مشکلات اور حالات کی بدصورتی کو من و عن کینوس پر اتار دیا بنا کسی خوبصورتی کا لبادہ اڑائے۔
گوسٹیو کو ربے ریلزم تحریک کا بانی مانا جاتا ہے۔ اس کے نزدیک روز مرہ زندگی کے شب و روز کی تصویر کشی ہی صحیح معنوں میں ایک جمہوری اور عوامی عمل تھا۔ کو ربے کی مشہور زمانہ پینٹنگ "دی اسٹوڈیو" کو نمائش میں رکھنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔
کوربے کی طرح ہانورے ڈومیر بھی ریلزم نے فرانس کی اشرافیہ کی بدعنوانیوں کو اپنی تصاویر کے ذریعے بے نقاب کیا۔ اس کے مطابق محنت کش مرد عورتیں ہی سماج کے اصل ہیرو ہیں۔ ریلزم آرٹ کی سب سے زیادہ اور بڑی نمائشیں امریکا میں ہوئیں۔ روس میں یہ سوشل ریلزم کے نام سے متعارف ہوئی اور اس کو مارکسزم کی تشہیر کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔
پاکستان میں کولن ڈیوڈ اور خالد اقبال ریلزم کے بڑے مشہور مصور مانے جاتے ہیں۔ کولن ڈیوڈ نے ہیومن فیگرز کو بھی اپنے فن کا حصہ بنایا۔