Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Sanati Inqilab

Sanati Inqilab

صنعتی انقلاب

صنعتی انقلاب انسانی زندگی کے حالات کی تبدیلی تھی جو اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ اور مغربی یورپ میں ہوئی۔ اس نے معاشرے، ادویات، معیشت، تعلیم، اور ثقافت جس میں متعدد تکنیکی اختراعات نے انسانی مزدوری کو بہت آسان کیا جیسا کہ کوئلے اور لوہے جیسے معدنی ذرائع سے لکڑی جیسے ذرائع کو تبدیل کرنا وغیرہ۔ مکینیکل طاقت کو پانی کے ایک مستقل ذریعہ سے آزاد کیا۔ اور سرمایہ دارانہ طریقوں اور زرعی معاشرتی اصولوں کے رائج کی حمایت کی۔

اس انقلاب نے انسانی تاریخ کےایک اہم دھارے کو موڑ دیا جس کا موازنہ کاشتکاری میں جدت یا پہلی شہری ریاستوں کے عروج سے کیا جاسکتا ہے۔ ماضی کے پیچیدہ نظام ہائے میں اور روزمرہ کی زندگی میں واضع تبدیلی عمل میں آئی۔ اس میں تکنینکی ترقی سب سے زیادہ ہے۔

صنعتی انقلاب کا آغاز برطانیہ میں سترہویں صدی کے اوائل میں ہوا تھا۔ انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کو متحد کرنے والے یونین ایکٹ کے تحت داخلی امن کی ایک مستقل مدت اور اندرونی تجارت میں رکاوٹوں کے بغیر داخلی آزادی، کاروباری و تجارتی منڈی کا آغاز اس کی بنیاد بنے۔ برطانیہ کے پاس قابل اعتماد اور تیز رفتار ترقی پذیر بینکاری کے شعبے کی سہولت، مشترکہ اسٹاک کمپنیوں کے قیام کے لئے سیدھا ساقانونی ڈھانچہ، قانونی حکمرانی کو نافذ کرنے کے لئے ایک جدید قانونی فریم ورک اور نظام، ایک ترقی پذیر نقل و حمل کے نظام نے اس صنعتی بہاؤ کو تقویت بخشی۔

1700کے آخر میں برطانیہ نے دستی مزدوری پر مبنی سست رفتار معیشت کی جگہ صنعت اور مشینری کی تیاری کا غلبہ حاصل کرنا شروع کیا۔ اس کا آغاز ٹیکسٹائل صنعتوں کے تکنیک، آئرن بنانے کی تکنیک کی ترقی اور بہتر کوئلے کے بڑھتے ہوئے استعمال سے ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے چارسو پھیل گیا۔ نہروں، بہتر سڑکوں اور ریلوے کے آغاز سے تجارت میں توسیع ہوتی گئی۔ بھاپ کی طاقت سے چلنے والی مشینری کے تعارف نے پیداواری صلاحیت میں ڈرامائی اضافہ کیا۔ آل میٹل مشین ٹولز کی ترقی نے دیگر صنعتوں میں پیداوار کے لئے زیادہ پیداواری مشینوں کی تیاری میں سہولت فراہم کی۔ انیسویں صدی کے دوران مغربی یورپ اور شمالی امریکہ میں پھیلے اس کے اثرات بالآخر دنیا کے بیشتر حصوں کو متاثر کرگئے۔ بمطابق قانون فطرت معاشرے پر اس تبدیلی کا اثر بہت زیادہ ہوا۔

آبادی میں بڑا اضافہ، زرعی انقلاب، جو آبادی میں اضافے اور کاشت میں نئی تکنیک اور مشینری کے استعمال سے منسلک تھا، کپاس، لوہے اور اسٹیل کی صنعتوں میں پیداوار کی نئی تکنیکوں کا اطلاق، گھریلو صنعت کا بتدریج ترک اور فیکٹریوں میں پیداوار کی توجہ، جہاں اس کی زیادہ سختی سے نگرانی کی جاسکتی ہے یہ سب اس انقلاب کی بنیادی وجوہات میں شامل حال تھیں۔

برطانوی معاشرے کے کردار نے بھی کاروبار کے عروج کو متحرک کیا ہے۔ تجارت اور اشیاء کی تیاری میں یا پیشوں میں دولت کے حصول کے نتیجے میں افراد کو درجہ بہ درجہ ترقی و خوشحالی دونوں ملی۔ اشرافیہ نے خود ان سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کی جس نے ان کی املاک کو پیداوار سے جوڑ دیا۔ اس سے پیسہ ایک جامد جگہ سے نکل کر صنعتی اشکال میں آیا اور نچلے طبقے تک تقسیم ہوا۔ مزدوری کرنے اور طے شدہ اجرت ملنے سے ایک مستقل روزگار بھی عمل میں آیا جو مالک و ملاز م دونوں کیلئے لازم و ملزوم بنا۔ ایک نئی مڈل کلاس نے جنم لیا جس کی محنت اور پسینہ اس انقلاب کے تسلسل میں کام آئے۔

سرمایہ داروں کی صنعت کاری کے خلاف مفکرین نے اعتراضات بھی اٹھائے۔ کرایہ میں مستقل اضافہ، جو زیادہ پیداوار اور بڑھتی آبادی کی پیروی کرے، معاشی بحرانوں کی بنیاد ہوسکتاہے۔ دوسری طرف بڑھتی ہوئی آبادی جو ترقی کا لازمی نتیجہ تھی۔ اس تبدیلی کا مقصد بنیادی طور پر بڑھتی ہوئی آبادی کی خوشی کو یقینی بنانا تھا جو مختلف حالات میں اقلیت کے لالچ سے خطرہ بن سکتی تھی۔

سرمایہ دارانہ ترقی کے اندر پیداوار ی تیزی میں اضافہ دیکھنےکو ملا لیکن عدم مساوات کو بھی محسوس کیا گیا۔ عدم مساوات سے منسلک ناانصافیوں کو باہمی یا رضاکارانہ انجمنوں کی سرگرمیوں کے ذریعہ بہتر بنانے کا عزم کیا گیا۔ لیکن کارل مارکس نے اس راستے کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی کہ عدم مساوات چلے گی اور استدلال کیا کہ سرمایہ داری خود ہی ختم ہوجائے گی۔

اس خوشحالی انقلاب نے برصغیر میں اپنے رنگ دکھائے۔ جہاں بہت سے لوگوں کو روزگار ملا وہاں موجودہ صنعتوں کو شدید نقصان اس صورت میں پہنچا کہ مقامی پیداوری و صنعتی طبقات آزادی سے غلامی میں منتقل ہوکر اپنے منصب سے دستبردار ہوئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نےبرطانوی شاہی فوج کی طات کے زور پر اپنی اجاراداری قائم کی اور زمیندار کو مقروض اور عام آدمی سے روٹی مصنوعی قحط و قلت پیدا کرکے چھین لی۔ تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ برصغیر و چین جو دنیا کے جی ڈی پی میں سب سے زیادہ حصہ دار تھےاور دنیا کو پیداواری مصنوعات فراہم کرکے معاوضے میں سونا وصول کرتے وہ صرف دو وقت کی روٹی کیلئے زندہ اور غلامی کی چکی میں پستے چلےگئے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Yaroshalam Aur Tel Aviv Mein Mulaqaten

By Mubashir Ali Zaidi