Pakistan Aur Kharja Policy (2)
پاکستان اور خارجہ پالیسی (2)
خارجہ پالیسی کی اگر آسان الفاظ میں تعریف کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ خارجہ پالیسی ایک ملک کی بین الاقوامی ممالک کے ساتھ تعلقات اور مفادات کا ڈھانچہ ہوتا ہے۔ ا یک ملک کے سفارتی تعلقات اور ان کی نوعیت اس ملک کی خارجہ پالیسی کے تابع ہوتے ہیں۔ خارجہ پالیسی ملک کے مفادات، اقدار اور مخصوص مقاصد کے مرہون ہوتی ہے۔ خارجہ پالیسی ہی بین الاقوامی تنظیموں میں شمولیت اور عالمی مسائل میں کردار طے کرتی ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بات کی جائے تو وطن عزیز کی خارجہ پالیسی کا مقصد قومی خودمختاری، معاشی ترقی اور عالمی سطح پر امن کا فروغ ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، تاریخی تعلقات اور خطے کی موجودہ صورتِ حال اس کے خارجی تعلقات پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ پاکستانی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں دیگر ممالک خصوصاً بھارت، چین، امریکا اور مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد سے ملک کو مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ان مسائل میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل کشمیر کا مسئلہ افغانستان کی صورت حال اور عالمی طاقتوں کی خطے میں دلچسپیاں شامل ہیں۔
انیس سو سینتالیس میں آزادی کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور اپنی بقا اور شناخت کو محفوظ بنانا تھا۔ یہ ملکی خارجہ پالیسی کا ابتدائی دور تھا۔ ابتدائی طور پر پاکستان نے بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہش ظاہر کی لیکن جلد ہی کشمیر کے مسئلے پر تنازعات نے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کر دی۔ بھارت چونکہ پاکستان سے ہر لحاظ سے طاقتور ہے اس لیے برابری کے تعلقات ہمیشہ ایک خواب ہی رہا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم اکثریتی ریاست کشمیر پر بھارت کے قبضے نے دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کو مزید گہرا کیا۔
اپنی بقا اور خطے میں استحکام کی خاطر ہماری اسٹیبلشمنٹ نے انیس سو پچاس کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے۔ امریکا کے ساتھ فوجی اور معاشی امداد کے حصول کے لیے پاکستان نے سینٹو اور سیٹؤ جیسے مغربی دفاعی اتحادوں میں شمولیت اختیار کی۔ اس دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکی بلاک کی حمایت میں رہی۔ دوسری طرف بھارت روسی بلاک میں رہا۔ اس کے بدلے امریکا نے پاکستان کی دفاعی اور معاشی مدد کی۔ اس امریکی مدد نے ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری طرف اس تعاون کے باوجود پاکستان کو کشمیر کے مسئلے پر خاطر خواہ مدد نہ مل سکی۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو کشمیر بارے اپنی خارجہ پالیسی میں کوئی کامیا بی نہ مل سکی۔
انیس سو ساٹھ کی دہائی میں چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی۔ چین نے بھارت کے ساتھ تنازعات کے وقت پاکستان کی مدد کی اور کی اور انیس سو باسٹھ چین بھارت جنگ کے دوران پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے تعلقات کا باضابطہ آغاز انیس سو تریسٹھ میں ہوا جب پاکستان اور چین نے اپنی سرحدوں کا تعین کیا اور تجارتی تعلقات کو فروغ دیا۔ ان تعلقات نے نہ صرف بھارت کو توازن میں رکھا بلکہ پاکستان کے لیے چین کو ایک اہم دفاعی اور اقتصادی ساتھی بنا دیا۔ اس حوالے سے پاکستان کی بھارت کے ساتھ تعلقات میں خارجہ پالیسی کا منظر قدرے بہتر ہوا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان انیس سو اڑتالیس، پینسٹھ اور اکہتر میں تین بڑی جنگیں ہوئیں۔ ان جنگوں نے پاکستانی خارجہ پالیسی میں بھارت کے عنصر کو مزید اہم بنا دیا۔ مذکورہ تنازعات میں کشمیر کے مسئلے اور بنگلہ دیش کی علیحدگی نے تعلقات کو مزید کشیدہ کیا۔ 1971 میں پاکستان دو لخت ہوگیاجس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت میں تبدیلی آئی اور ملک کو نئے سرے سے سفارتی تعلقات بنانے کی ضرورت پڑی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اول روز سے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔ قیام کے بعد پاکستان نے اسلامی یکجہتی کی حمایت میں اپنا کردار ادا کیا۔ مسلم اتحاد اور یکجہتی کے سلسلے میں 1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس کے انعقاد نے پاکستان کو مسلم دنیا کے اتحاد کے حوالے سے عالمی سطح پر ایک نمایاں مقام دیا۔ سعودی عرب، ترکیے، ایران اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات نے پاکستان کو عالمی سطح پر اسلامی ممالک کے درمیان تعاون اور حمایت میں کردار ادا کرنے کے قابل بنایا۔
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی میں افغانستان کی صورتحال نے اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان نے افغان جہاد میں امریکا اور دیگر اتحادی ممالک کے ساتھ تعاون کیا اور افغان مجاہدین کو مدد فراہم کی۔ اس جنگ کے دوران پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو پناہ دی۔ دو ہزار ایک میں نائن الیون کے واقعے کے بعدپاکستان نے امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ اس شمولیت سے ملکی خارجہ پالیسی پر نئے چیلنجز پیدا ہوئے اور پاکستان کو دہشت گردی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جو تاحال جاری ہے۔
دور ر حاضر ہی میں پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کا معاہدہ طے پایا۔ جس نے دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔ سی پیک نے پاکستان کی معیشت میں بہتری اور روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں اور اسے جنوبی ایشیا میں ایک تجارتی مرکز بنانے کی سمت میں اہم قدم ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چین کا کردار اور بھی مضبوط ہوگیا ہے اور پاک چین تعلقات میں مزید گہرائی اور مضبوطی بھی ہوئی۔
چین اور بھارت کے علاوہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ نائن الیون نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک نئی جہت اورچیلنجز پیدا کردیے۔ امریکہ کا افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا۔ امریکا کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں میں پاکستان کی کوششوں پر شکوک و شبہات نے دونوں ممالک کے تعلقات کو متاثر کیا ہے۔
پاکستان نے عالمی سطح پر اقوامِ متحدہ میں کشمیر، فلسطین اور انسانی حقوق کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ پاکستان کی کوشش رہی ہے کہ عالمی اداروں کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائےلیکن بھارت کے مخالفت اور عالمی طاقتوں کے مختلف مفادات کی وجہ سے اس مسئلے کا مستقل حل نہ ہو سکا۔ مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں ہوئی نہ ہی بھارت نے اس جانب کوئی مثبت پیش رفت کی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مختلف علاقائی اور بین الاقوامی عناصر کا اثر ہے۔ پاکستان نے بھارت، چین، امریکااور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات میں مختلف حکمت عملی اپنائی ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی کا مقصد قومی مفادات کا تحفظ، اقتصادی ترقی اور عالمی امن کا فروغ ہے۔ پاکستان کو اب بھی مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن میں بھارت کے ساتھ برابری کے تعلقات، افغانستان کی صورتِ حال اور عالمی طاقتوں کے خطے میں مفادات شامل ہیں۔ خارجہ پالیسی کو مزید متوازن اور مستحکم بنانے کے لیے پاکستان کو مستقبل میں اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ عالمی سطح پر امن کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔