Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Pakistan Aur Aalmi Taaqaten

Pakistan Aur Aalmi Taaqaten

پاکستان اور عالمگیر طاقتیں

پاکستان جنوبی ایشیا میں واقع ایک ایسا ملک ہے جو اپنے محل وقوع کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت اسے عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان نے امریکہ، چین، روس اور یورپی یونین جیسی عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں۔ تاہم ان تعلقات میں برابری کی حیثیت اور خودمختاری پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہا ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد اسے اپنے دفاع اور اقتصادی ترقی کے لیے عالمی طاقتوں کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس وقت پاکستان نے مغربی طاقتوں، خصوصاً امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔ کچھ دفاعی حلقے اس بات پر مصر ہیں کہ امریکہ اس وقت بہتر آپشن تھا۔ سرد جنگ کے دور میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا اور سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں میں شمولیت اختیار کی۔ ان معاہدات کے ذریعے پاکستان نے اپنے آپ کو سوویت یونین کے اثر و رسوخ سے بچانے کی کوشش کی۔ مگر ان تعلقات میں برابری کم اور انحصار زیادہ نظر آتا ہے کیونکہ پاکستان کی زیادہ توجہ امریکی امداد اور مالی تعاون پر مرکوز تھی۔

امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کو دفاعی ساز و سامان اور مالی امداد تو ملی، مگر بدلے میں پاکستان کو ان ممالک کے سیاسی اور عسکری مفادات کا ساتھ دینا پڑا۔ مثال کے طور پر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کا کردار اہم تھا۔ لیکن اس کے بدلے پاکستان کو اندرونی عدم استحکام اور دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دہشت گردی پاکستان کی جڑوں میں سرایت کیے ہوئے ہے۔

انیس سو ساٹھ کی دہائی میں بھارت کے ساتھ تنازع کے بعد پاکستان نے چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے۔ چین نے ہمیشہ پاکستان کو ایک قابلِ اعتماد شراکت دار سمجھا اور اس کی علاقائی خود مختاری کی حمایت کی۔ سی پیک جیسے منصوبوں نے پاکستان اور چین کے تعلقات کو مزید فروغ دیا ہے۔ چین نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہے۔ اس سرمایہ کاری کے تحت پاکستان کی اقتصادی ترقی کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔

اگرچہ چین پاکستان کا اہم اقتصادی اور دفاعی شراکت دار ہے مگر پاکستان پر چین کے قرضوں کی مقدار اور سی پیک میں شفافیت کی کمی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ تعلقات برابری کی بنیاد پر ہیں یا پاکستان کا انحصار چین پر بڑھ رہا ہے۔ پاکستان چین کے عالمی اور علاقائی مفادات کا احترام کرتا ہے۔ اس کی واضح مثال پاکستان کی خارجہ پالیسی میں لچک ہونا ہے۔ اس وجہ سے بھی پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات برابری کے نہیں ہیں۔

افغان سویت جنگ کے دوران اور امریکہ سویت سرد جنگ کے دوران پاکستان اور روس کے تعلقات کشیدہ رہے۔ پاکستان کا مغربی طاقتوں کے ساتھ اتحاد اور سیٹو، سینٹو جیسے معاہدات روس کے لیے باعثِ تشویش تھے۔ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ نے پاکستان اور روس کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان اور روس نے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون میں اضافہ ہوا ہے اور دونوں نے مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی ہیں۔

پاکستان اور روس کے تعلقات اب متوازن نظر آتے ہیں۔ مگر یہ تعلقات امریکہ اور چین جیسے طاقتور تعلقات کی نسبت کم اہمیت کے حامل ہیں۔ روس کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کے پاس زیادہ خودمختاری اور برابری کا پہلو ہے کیونکہ یہ تعلقات زیادہ تر تجارتی اور دفاعی تعاون پر مبنی ہیں۔ پاکستان مشرقِ وسطیٰ کے ممالک، خصوصاً سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں مذہبی اور اقتصادی پہلوؤں کی بنا پر گہرا تعاون رہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب کی مدد کی ہے۔ یہ مدد اس کے دفاعی معاملات میں واضح نظر آتی ہے۔

مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں پاکستان اکثر اپنی اقتصادی ضروریات اور مزدور برادری کی ملازمتوں کی فراہمی کی بنا پر انحصار کرتا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مالی امداد اور قرضے لینے کے باوجود پاکستان کو بعض اوقات اپنے خودمختار فیصلوں میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے ان تعلقات میں برابری نہیں دیکھی جاتی کیونکہ پاکستان کو بعض معاملات میں خلیجی ممالک کے سیاسی فیصلوں کی حمایت کرنی پڑتی ہے۔

پاکستان کی عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کو اکثر اپنی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے لیے ان اداروں کی مدد لینی پڑتی ہے۔ لیکن ان مالیاتی اداروں کی شرائط سخت ہوتی ہیں اور پاکستان کو اپنی اقتصادی پالیسیوں میں ان اداروں کے مطالبات کے مطابق تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔ ان اداروں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں برابری کا پہلو نظر نہیں آتا، کیونکہ پاکستان کو ان کی شرائط ماننی پڑتی ہیں۔ ان شرائط کی وجہ سے پاکستان کو اپنے خود مختار فیصلوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان کا عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں اکثر خود مختاری محدود رہی ہے۔ بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کو ان کی شرائط ماننی پڑتی ہیں اور بعض اوقات اپنی خارجہ پالیسی میں لچک دکھانی پڑتی ہے۔ پاکستان کی معیشت اکثر بحرانوں کا شکار رہی ہے۔ ان بحرانوں نے اسے عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں پر انحصار کرنا بڑھا دیا ہے۔ اس معاشی انحصار کی وجہ سے پاکستان کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات اور دہشت گردی کے مسائل نے بھی پاکستان کے تعلقات کو عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن اور برابری پر مبنی بنانے میں مشکلات پیدا کی ہیں۔ عالمی طاقتیں اکثر پاکستان کو خطے میں اپنے مفادات کے تحت دیکھتی ہیں۔

پاکستان اور عالمی طاقتوں کے درمیان تعلقات میں برابری کا پہلو ہمیشہ نظر نہیں آتا۔ یہ تعلق ایک جیسا اور برابری کا نہیں رہتا۔ اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی جغرافیائی اور اقتصادی صورتحال کی وجہ سے اکثر عالمی طاقتوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ چین، روس اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کو کسی حد تک برابری کا موقع ملا ہے مگر مغربی طاقتوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کو اکثر انحصار اور شرائط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگر پاکستان اپنی معیشت کو مستحکم کرتا ہے اور خود انحصاری کی جانب بڑھتا ہےتو وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں برابری کو یقینی بنا سکتا ہے۔ مضبوط معیشت اور بہتر سفارتی حکمت عملی پاکستان کو عالمی طاقتوں کے ساتھ برابر کی سطح پر تعلقات قائم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Hum Wohi Purane Lutere Hain

By Muhammad Salahuddin