Mustaqbil Ka Afghanistan
مستقبل کا افغانستان
جب سے امریکہ کا افغانستان سے انخلا ہوا ہے تب سے دو طرح کے بیانیے اپنا وجود رکھتے ہیں۔ دونوں بیانیے اپنے اپنے پسندیدہ لکھاری اور قاری رکھتے ہیں۔ دونوں بیانیے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ آئے روز خبروں، تجزیوں اور سوشل میڈیاکے مختلف پلیٹ فارمز پر دونوں بیانیوں کی تشہیر تواتر سے تشہیر کی جارہی ہے۔ دونوں گروہ اپنے حق میں اور دوسرے کے مخالف مختلف قسم کی خبریں اور پوسٹیں لگاتے ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ افغانستان میں امریکہ نے وہی کچھ کیا جو اس کے مفادات تھے۔ امریکہ اپنے مقاصد و مفادات پورے ہوتے ہی وہاں سے باعزت واپس چلا گیا۔ دوسرا کہتا ہے کہ امریکہ کو اس صدی کی بدترین شکست ہوئی جس کو وہ اب ہضم نہیں کرپارہا۔ امریکہ اب منہ دکھانے کے قابل نہیں لہذا اس کے پاس اب اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ نہیں۔ بہرحال ذیل میں دونوں کو کچھ تفصیل میں بیان کیا جارہا ہے۔
پہلا بیانیہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کو طالبان کے مقابلے میں منہ کی کھانی پڑی جس کے نتیجے میں امریکہ کا وہاں رہنا کوئی جواز نہیں رکھتا۔ امریکہ کو ویتنام کی طرز پر شکست فاش ہوئی ہے جس سے امریکہ کی شیم شیم ہورہی ہے۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ شکست خوردہ ہے۔ خود امریکہ میں مختلف فورمز پر جوبائیڈن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بائیڈن کوان کے انخلا والے اقدام پر فوری مستعفی ہونے کا کہا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کا افغانستان سے مکمل انخلا ذلت اور تنزلی کا باعث ہے۔ اس کے جواب میں موجودہ امریکی صدر جوبائیڈ ن نے بذریعہ ٹویٹ اپنا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ مجھے اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔ پہلے بیانیے والے یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ امریکہ سمیت دیگر کئی ممالک امریکی انخلا پر نالاں ہیں اور نپے تلے انداز میں امریکہ پر تنقید کرتے ہیں۔ پہلے بیانیے والوں کا گروہ اپنے آرگومنٹس کو مزید تقویت دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ دیکھیں اب عالمی طاقتیں طالبان کے افغانستا ن پر غلبےکو بھی ہضم نہیں کر پارہے۔ طاقتور ممالک سوائے چین اور روس کے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کیلئے مزید کوئی منصوبہ بنارہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ چین اور روس کو طالبان کو سپورٹ کرنے اور ان سے تعاون کرنے کو طالبان کی فتح قرار دے رہےہیں۔
پہلے بیانیے کے حامی کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ جیسے امریکہ نے چاند پر جانے کی جھوٹی دیڈیو بنائی اور پوری دنیا پر سائنس و ٹیکنالوجی پر اپنی برتری ثابت کی بالکل ویسے ہی امریکہ نے اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور مارنے کا ایک ڈرامہ رچایا اور اعلان کیا کہ امریکہ نے پوری دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک دہشت گرد اسامہ بن لادن کو مار دیاہے جس سے پوری دنیا کا امن بحال ہوگیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بیانیہ نمبر ایک والے گروہ اس بات پر مصر ہیں کہ یہ ہونا ہی تھا اور امریکہ کو شکست تقدیر کا کھیل ہے۔ امریکہ کافر ملک ہے جو باقی کفار ممالک کے ساتھ ملکر پورے عالم اسلام کے لیے نت نئے منصوبے بنا کر مسلمانوں کا جان، مال، عز ت اورآبرو پامال کرتا رہتا ہے۔ افغانستان میں امریکی ہار اسلام کی فتح اور کفار کی شکست ہے۔ اب طالبان افغانستان کے ایک کونے سے دوسرے کونےتک اسلامی نظام کو نافذ کردیں گے۔
جبکہ دوسرا بیانیہ ان لوگوں کا ہے جو امریکہ کو پاکستان جیسے ملک کا ہر سطح پر دوست، پارٹنر اور ساتھی سمجھتے ہیں۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کی مدد سے افغانستان میں دہشت گردی کی جنگ جیت گیا۔ امریکہ کیلئے یہ جنگ ایک دلدل بن چکی تھی جس میں سے نکلنا امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے لیے ناممکن ہوچکا تھا۔ دنیا کے امن کی بحالی کی اس عظیم جنگ میں پاکستان کا ساتھ امریکہ کیلئے ناگزیر تھا جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ امریکہ افغانستان سے باعزت واپس چلاگیا ہے اور اسےکوئی شکست نہیں ہوئی بلکہ القائدہ وغیرہ کا خاتمہ اور اسامہ بن لادن کی نعش کو سمندر برد کرناامریکہ کی فتح عظیم ہے جسے تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔ امریکہ کوئی دم دبا کر نہیں بھاگا بلکہ وہ اسی ٹھاٹھ باٹھ سے گیا جس طرح وہ علی العلان آیا تھا۔ بلاشبہ امریکی سول اور عسکری لوگوں کا خون اس جنگ میں بہہ گیا لیکن یہ قربانیاں ہر جنگ میں ہوتی ہیں۔ کوئی جنگ بغیر قربانی نہیں لڑی اور جیتی جاسکتی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ایسا دنیا کی تاریخ میں ہوتا آیا ہے۔ امریکی اتحادی ممالک امریکہ کو غم و غصے سے نہیں دیکھتے بلکہ وہ اس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ وہ امریکی افواج کے انخلاکو امن، حکمت عملی اور عالمی سیاست میں فتح سمجھتے ہیں۔ افغان طالبان کیلئے اس بیانیہ کے حامی یہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ جب افغان حکومت اور فوج افغانستان میں امن قائم نہیں رکھ سکتی تو دوسرے ممالک اور خاص طور پر امریکہ وہاں پر کیا کرسکتا ہے؟
افغان طالبان کسی نہ کسی طرح افغانستان میں اپنا کنٹرول قائم کر لیں گے۔ بیانیے کی اس دو طرفہ جنگ میں اگر ہم افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال کی طرف دھیان دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ بیانیے بنتے رہتے ہیں اور ان کے مخالف بیانیے تشکیل پاتے رہتے ہیں۔ سب سے پہلے طالبان کا افغانستا ن میں حکومت کا طرز دیکھیں کہ وہ کس طرح افغانستان میں اپنا اختیار چلاتے ہیں۔ اس کے بعد طالبان کے بیرونی دنیا سے تعلقات کو دیکھنا چاہیےکہ وہ اقوام عالم میں کس طرح کردار ادا کرتے ہیں۔ حال کی اس گھڑی میں تو افغان طالبان دنیا کے ساتھ چلنے کا کہہ رہے ہیں لیکن مستقبل میں کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا۔ سب سے اہم یہ کہ طالبان اپنے ہمسایہ ممالک خصوصاپاکستان سے کیسے تعلقات استوار رکھتے ہیں۔ افغانستان میں تو طالبان اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرچکے ہیں لیکن کالعدم تحاریک جو کبھی افغان طالبان کا حصہ رہی ہیں ان کا کیا مستقبل ہوگا؟ تحریک طالبان پاکستان کا اب کوئی مظہر ہے؟ اگربرادر ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان شرعی نظام نافذ کردیتے ہیں تو اس کا اثر پاکستان، ایران، تاجکستان، ترکمانستان وغیرہ پر کیا اثر پڑے گا؟ پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کا اب کیا مستقبل ہے؟ ان کو اب افغانستان میں واپس بھیج دیا جائے گا یا یہ ہماری تئیس کروڑ کی آبادی کا حصہ رہیں گے؟