Lebanon
لبنان
لبنان، مشرق وسطی کے مرکز میں ایک ایسا ملک ہے جو ہزاروں سال پرانی مگر زرخیز اور پیچیدہ تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ لبنان قدیم زمانے میں فونیشیا کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ایک وقت تھا جب لبنان عظیم سمندری تجارت اور ثقافتی تبادلے کی سرزمین تھی۔ اپنی پوری تاریخ میں لبنان فتح اور مختلف تہذیبوں سے متاثر رہا ہے۔ ان تہذیبوں میں مصری، فارسی، یونانی، رومی اور عرب شامل ہیں۔
قرون وسطیٰ میں لبنان صلیبیوں اور مسلم افواج کا میدان جنگ بنا رہا۔ دور جدید میں لبنان نے 1943 میں فرانسیسی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی حاصل کی۔ تاہم ملک کو 1975 سے 1990 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ جاری سیاسی عدم استحکام اور علاقائی تنازعات سمیت اہم چیلنجوں کا سامنا رہا۔ ان مشکلات کے باوجودلبنان ناقابل یقین قدرتی خوبصورتی اور ایک متحرک ثقافتی ورثے کی سرزمین ہے۔
لبنان کی سیاسی تاریخ مذہبی، نسلی اور علاقائی عوامل کے پیچیدہ تعامل سے نشان زد ہے۔ 1943 میں فرانسیسی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی کے بعد لبنان نے اقتدار میں اشتراک کا ایک نظام اپنایا جسے اعترافیت کہا جاتا ہے۔ اس نے مذہبی وابستگی کی بنیاد پر سیاسی عہدے مختص کیے۔ مذکورہ نظام کی وجہ سے ملک کی مختلف مذہبی برادریوں، بنیادی طور پر مارونائٹ عیسائی، سنی مسلمان اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان تناؤ پیدا ہوتا رہا۔ یہ کشیدگی ایک تباہ کن خانہ جنگی میں پھوٹ پڑی۔
اس خانہ جنگی میں مختلف دھڑے اور غیر ملکی مداخلتیں پیش پیش تھی۔ جنگ کے نتیجے میں کافی جانی و مالی نقصان ہوا اور لبنانی معاشرے میں تقسیم مزید گہری ہوگئی۔ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سے لبنان نے سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور بیرونی اثرات کے ساتھ جدوجہد کی ہے جس کی وجہ سے آج بھی حکمرانی، اقتصادی ترقی اور سماجی ہم آہنگی میں جاری چیلنجز کا سامنا ہے۔
لبنان کی جنگ کی تاریخ ہنگامہ خیز تنازعات اور تشدد سے بھر ی ہوئی ہے۔ لبنانی خانہ جنگی سےفرقہ وارانہ کشیدگی، اقتدار کی لڑائیوں اور علاقائی دشمنیوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی اور جانی نقصان ہوا۔ لبنان کی قومی تحریک، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، اور شامی اور اسرائیلی فوجی دستوں سمیت مختلف گروہوں نے اس تنازعے میں اہم کردار ادا کیا۔ جنگ نے وحشیانہ قتل عام، آبادیوں کی نقل مکانی اور سیاسی ہلچل دیکھی۔ 1989 کے طائف معاہدے نے خانہ جنگی کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے میں مدد تو کی لیکن اس کے بعد کے سالوں میں لبنان کو مسلسل تشدد اور عدم استحکام کا سامنا رہا۔ خانہ جنگی کی وراثت لبنان کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
جنگوں میں لبنان کی شمولیت خانہ جنگی سے آگے تک پھیلی ہوئی ہے۔ برسوں کے دوران مختلف تنازعات اور جھڑپوں نے ملک کی ہنگامہ خیز تاریخ میں حصہ ڈالا ہے۔ یہاں لبنان کی طرف سے لڑی جانے والی چند اہم جنگوں اور ان کے نتائج کا ایک جائزہ ہے۔ سب سے پہلے لبنان پر اسرائیل کا حملہ ہے۔ لبنان سے سرگرم فلسطینی گروپوں کے حملوں کے جواب میں اسرائیل نے 1982 میں لبنان پر ایک مکمل حملہ کیا۔ شتیلا قتل عام جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کو لبنانی عیسائی ملیشیا فورسز نے اسرائیلی فوجیوں کی نگرانی میں قتل کر دیا تھا۔ اس جنگ نے لبنان کے معاملات میں اسرائیلی مداخلت کو مزید مضبوط کیا اور خطے میں اسرائیل مخالف جذبات بھڑکا دیے۔
دوسرے نمبر پر جنوبی لبنان تنازعہ ہےجو 1982 کے اسرائیلی حملے کے بعد ہوا۔ لبنان نے اپنے جنوبی علاقے میں ایک طویل تنازع جھیلا۔ اس میں بنیادی طور پر اسرائیلی افواج اور حزب اللہ، لبنانی جنگجو گروہ ایکٹو تھا۔ حزب اللہ کو ایران کی ہر طرح کی حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل لبنان کی سرحد پر اکثر جھڑپیں اور حملے ہوتے رہے۔ تنازعہ بالآخر 2000 میں جنوبی لبنان سے اسرائیل کے انخلاء پر ختم ہوا۔ اس جنگ میں اسرائیل کو منہ کی کھانی پڑی۔ ایک طرف ایٹمی طاقت اسرائیل اور دوسری طرف لبنانی حزب اللہ فائٹرز جو صرف میزائیل سے لیس تھے۔ تیسرے نمبر پر جولائی 2006 میں حزب اللہ کے سرحد پار حملے کے بعد اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک ماہ طویل جنگ شروع ہوئی۔ جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف سے کافی جانی نقصان ہوا۔
لبنان چونکہ ایک عرصے سے اسرائیل کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ دونوں اطراف سے عسکری کاروائیاں ہوتی رہتی ہیں جس سے خطے کے امن کو نقصان پہنچتا ہے۔ حالیہ لبنان اسرائیل جھڑپوں کے دوران اب اسرائیل اپنی توجہ خان یونس اور رفح سے ہٹا کر لبنانی بارڈر پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔ یہ جھڑپیں کسی بھی لمحے ایک جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔ لبنان ااور اسرائیل کوئی دو ہم پلہ طاقتیں تو نہیں لیکن ایک نظر ان کی فوجی طاقتوں کا موازنہ کرتے ہیں۔ لبنان اور اسرائیل کی فوجی طاقتوں اور کمزوریوں کا موازنہ کرتے وقت، دفاعی بجٹ، عملہ، سازوسامان اور سٹریٹجک صلاحیتوں جیسے مختلف عوامل پر غور کرنا ضروری ہے۔
لبنان کا خطہ اپنے پہاڑی علاقوں اور گھنے شہری علاقوں کے ساتھ زمینی حملوں کے خلاف قدرتی دفاع فراہم کر سکتا ہے۔ حزب اللہ لبنانی مسلح افواج کا حصہ نہ ہونے کے باوجود لبنان میں ایک اہم نیم فوجی قوت ہے جس کو آبادی کے بعض طبقات کی مضبوط حمایت حاصل ہے۔ اس کے پاس قدرے بہتر گوریلا حکمت عملی اور صلاحیتیں ہیں جو اسے اسرائیل کے لیے ایک زبردست غیر متناسب خطرہ بناتی ہیں۔ بین الاقوامی تعاون کی بات کی جائے تو لبنان نے امریکہ اور فرانس جیسے ممالک سے فوجی امداد اور تربیت حاصل کی ہے جس سے اس کی فوجی صلاحیتوں کو کسی حد تک تقویت ملی ہے۔ میزائل ہتھیار اور ٹیکنالوجی کے تناظر میں لبنان کے پاس مختلف رینج کے بیلسٹک میزائلوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے جن کی بنیادی وجہ حزب اللہ کے انجنئیرز ہیں۔ یہ میزائل ماضی میں ہونے والی جنگوں میں قدرے بہتر اور موثر انداز میں استعمال ہوچکے ہیں۔ آنے والے تنازع کی صورت میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔
لبنان کوئی بڑی فوجی طاقت ہے اور نہ ہی اس کے پا س اتنے وسائل ہیں جن سے اپنا دفاعی بجٹ بہتر کرسکے۔ لبنان کا دفاعی بجٹ اسرائیل کے مقابلے میں محدود ہے جس کی وجہ سے جدت میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ سازوسامان اور تربیت کے حوالے سے لبنانی مسلح افواج کو پرانے آلات اور محدود تربیت کے ساتھ چیلنجوں کا سامنا ہے جس سے ان کی جنگی تیاری متاثر ہوتی ہے۔ اندرونی تقسیم بھی لبنان کی ایک کمزور ی ہے۔ لبنان کے سیاسی منظر نامے میں فرقہ وارانہ تقسیم فوجی ہم آہنگی اور تاثیر کو متاثر کر سکتی ہے۔ لبنان کی فضائی دفاعی صلاحیتیں اسرائیل کے مقابلے میں نسبتاً کمزور ہیں جس سے اس کی فضائی حدود اسرائیلی فضائی برتری کے لیے خطرے سے دوچار ہیں۔
لبنان کے بعد اسرائیل پر ایک نظر ڈالیں۔ اسرائیل کے پاس تکنیکی طور پر ترقی یافتہ فوج ہے جس کا تحقیق اور ترقی پر زور ہے۔ اسرائیلی فوج جدید ترین ہتھیاروں کے نظام اور دفاعی صلاحیتیوں سے لیس ہے۔ اسرائیل اپنے جی ڈی پی کا ایک اہم حصہ دفاعی اخراجات کے لیے مختص کرتا ہے جس سے مسلسل جدت اور جدید فوجی ساز و سامان کی خریداری کی اجازت دی جاتی ہے۔ اسرائیلی فضائیہ خطے میں سب سے زیادہ قابل اور موثر ہے۔ اسرائیلی فضایہ کے پاس لڑاکا طیاروں، ڈرونز، اور درست رہنمائی والے گولہ بارود کا ایک مضبوط بیڑا ہے۔ اسرائیل کے پاس انتہائی تربیت یافتہ اور ایلیٹ اسپیشل فورسز کے یونٹ ہیں، جو انسداد دہشت گردی اور خصوصی آپریشنز میں اپنی مہارت کے لیے مشہور ہیں۔
اسرائیل کو پڑوسی ممالک اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے مسلسل سیکورٹی خطرات کا سامنا ہے۔ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ برے تعلقات کی وجہ سے یہ تنازعات کی مستقل حالت میں گھرا ہوا ہے۔ اسرائیل کے فوجی اقدامات، خاص طور پر اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے سلسلے میں بہت سے بین الاقوامی طاقتوں نے اسرائیل کو آڑے ہاتھو ں لیا اور بعض ممالک نے اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کردیے ہیں۔
اسرائیل کی آبادی کا حجم اس کے پڑوسیوں کے مقابلے میں طویل عرصے تک تنازعات کو برقرار رکھنے میں چیلنجز کا باعث بن سکتا ہے۔ گنجان آباد شہری علاقوں میں جانے کی ضرورت سے اسرائیل کی فوجی حکمت عملی متاثر ہو سکتی ہے۔ اسرائیلی افواج گوریلہ جنگوں میں کوئی خاص مہارت نہیں رکھتی۔ حماس کے جنگجو اور حز ب اللہ کے کمانڈوز گوریلہ وار فئیر کیلئے ٹرینڈ ہیں۔