Lebanon Israel Jang
لبنان اسرائیل جنگ
لبنان مغربی ایشیا میں ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کے صرف دو ہمسایہ ممالک ہیں شام اور اسرائیل۔ اس کا رقبہ تقریباً 10,452 مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً 6.8 ملین۔ لبنان کا ساحلی علاقہ بحیرہ روم کے ساتھ تقریباً 177 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے جس میں کئی قدرتی بندرگاہیں ہیں۔ لبنان کے مشرقی حصے میں لبنان کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے جو شمال سے جنوب تک ہے۔ یہ سلسلہ ملک کے کل رقبے کا تقریباً 60 فیصد حصہ بنتا ہے۔ لبنان کے پہاڑی اور ساحلی علاقوں کے درمیان وادی بیقا واقع ہے۔ یہ ایک زرخیز وادی ہے جو ملک کے لیے زراعت کا ایک اہم مرکز ہے۔ بیروت دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ایک اہم تجارتی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔ لبنان ایک جمہوریہ ہے۔ ملک کو 18 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ لبنان کا جغرافیہ اس کی تاریخ، ثقافت اور معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ساحلی علاقہ تجارت اور ثقافت کے لیے ایک اہم راستہ ہے جبکہ پہاڑی علاقہ حفاظت اور خودمختاری کا کام کرتا ہے۔
لبنان کی سیاسی تاریخ کی بات کی جائے تو بہت زیادہ سیاسی جماعتیں ہیں لیکن ایک مذہبی تنظیم حزب اللہ نے ملک کی آنے والی سیاسی اور دفاعی تاریخ بدل کے رکھ دی۔ یہ تنظیم جنوبی لبنان کے زیادہ تر شیعہ مسلم علاقے سے تعلق رکھنے والے ملیشیا جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔ تنظیم 1979 میں ہونے والے ایرانی انقلاب کی مذہبی مقبولیت سے متاثر ہوئی۔ لبنان بھی خانہ جنگی کا شکار ہوا۔ حزب اللہ نے خود کو لبنانی مقاصد کے محافظ کے طور پر کھڑا کیا۔ خانہ جنگی کے دوران بنیادی طور پر حزب اللہ جنوبی لبنان میں اسرائیل کی دفاعی افواج آئی ڈی ایف کی لبنانی علاقوں میں مداخلت اور جنوب سے ان کے حملے کی مخالفت کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ اسرائیلی جارحیت اور آئی ڈی ایف پر دباؤ ڈالنے میں حز ب اللہ کا کردار حیران کن ہے۔
حز ب اللہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد ایک قوت کے طور پر جنوبی لبنان میں موجود رہی جو اب تک ملک میں کافی مقبول اور طاقتور ہو چکی ہے۔ جنگجو تنظیم کے اثرو رسوخ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اکتوبر دو ہزارمیں ایک اسرائیلی تاجر اور تین اسرائیلی فوجیوں کی باقیات کے بدلے میں اسرائیل نے جنوری دو ہزار میں سینکڑوں قیدیوں کو رہا کیا جن میں اکثریت فلسطینی اور لبنانی تھے۔ اسرائیل سے اپنی سرزمین واپس لینے اور ملکی سلامتی کو قائم رکھنے کی خاطر حزب اللہ نے 12 جولائی 2006 کے اوائل میں شمالی اسرائیل میں راکٹوں کی ایک لہر داغ دی جس کی وجہ سے آئی ڈی ایف کو دوبارہ توجہ مرکوز کرنا پڑی جب کہ حزب اللہ کے نوجوان سرحد پار کر گئے۔
اس مہم کے دوران دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کیا گیا اور آٹھ اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے سوچا تھا کہ اغوا کے نتیجے میں قیدیوں کے ایک اور تبادلے کے لیے مذاکرات ہوں گےلیکن انھوں نے تنظیم کو قائل کرنے کے لیے اسرائیل کے عزم کو غلط سمجھا کہ وہ بغیر کسی نتیجے کے فوجیوں پر مزید حملہ نہیں کر سکتا۔ مغوی فوجیوں کو بیرون ملک لے جانے سے روکنے اور حزب اللہ کو نئے فوجی سامان کی فراہمی کو روکنے کے لیے اسرائیل نے ایک بڑی فضائی مہم کا آغاز کیا۔ اس کاروائی میں بیروت ہوائی اڈہ، سڑکیں اور پل، ملیشیا کی پوزیشنز، راکٹ لانچرزاور بیروت میں حزب اللہ کا ہیڈکوارٹر اور راکٹوں کا ذخیرے شامل تھے۔ فضائی حملوں کے پہلے دور نے ناقابل یقین حد تک اچھا کام کیا۔
اسرائیلی فضائیہ نے 12 جولائی کی شام کو صرف 39 منٹ میں حزب اللہ کے انتہائی قیمتی اسٹریٹجک ہتھیار، ایرانی ساختہ زلزال طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹوں کو تباہ کر دیا۔ بھاری فضائی مہم نے حزب اللہ کے ایلیٹ ملیشیا کے جنگجوؤں کو نقصان پہنچایا اور اس کے رہنماؤں کو زیر زمین بھگا دیا۔۔ حملوں میں سینکڑوں شہری بھی مارے گئے لیکن وہ شمالی اسرائیل پر مسلسل راکٹ حملوں کو روکنے میں ناکام رہے۔ 22 جولائی کو حزب اللہ کو اسرائیلی سرحد اور دریائے لیبیا کے شمال سے دور بھگانے کی کوشش میں ایک بڑے زمینی حملے کا آغاز کیا گیا۔ تاہم بھاری جانی نقصان اور حزب اللہ کو شکست دینے میں کی ناکامی کی وجہ سے جنگ سے نمٹنے کے طریقے کے حوالے سے اسرائیل میں بہت زیادہ اندرونی مایوسی اور ناکامی پائی گئی۔
اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کی شرائط کو اسرائیل، حزب اللہ اور لبنانی حکومت نے قبول کرکے اس جنگ کورو ک دیا۔ قرارداد میں فوری جنگ بندی، جنوبی لبنان میں لبنانی افواج اور اقوام متحدہ کے امن دستوں کی تعیناتی، اسی علاقے سے آئی ڈی ایف اور حزب اللہ کے انخلاء اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بقول اسرائیلی حکام ان کے خیال میں اس قرارداد نے اپنے زیادہ تر اہداف حاصل کر لیے حالانکہ حزب اللہ نے ان فوجیوں کو پکڑنا جاری رکھا جنہیں 12 جولائی کو اغوا کیا گیا تھا۔ حزب اللہ اپنے گھر پر فتح کا اعلان کرنے اور عرب دنیا کے بیشتر حصوں میں ہیرو بننے میں کامیاب رہی کیونکہ یہ وہ آئی ڈی ایف سے لڑنے میں کامیاب رہی۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو کوئی اور عرب افواج یا ملیشیا نہیں لڑ پائی۔
حزب اللہ ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے جو 1982 میں اس ملک پر اسرائیل کے حملے کے بعد لبنان کی خانہ جنگی کے دوران ایک رزسٹنس فورس کے طور پر سامنے آئی تھی۔ یہ 2000 کی دہائی سے لبنان کی اہم سیاسی قوتوں میں سے ایک ہے۔ تاریخی طور پر لبنان میں سب سے کم بااثر مذہبی گروہ شیعہ مسلمانوں نے سب سے پہلے اعتدال پسند اور بنیادی طور پر سیکولر امل تحریک میں اہمیت حاصل کی۔ لبنانی شیعہ علماء کے ایک گروپ نے 1979 میں شیعہ اکثریتی ایران میں اسلامی انقلاب اور 1982 میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے بعد اسرائیل کو لبنان سے نکالنے اور وہاں ایک اسلامی جمہوریہ قائم کرنے کے ارادے سے حزب اللہ کی تشکیل کی تھی۔ حز ب اللہ نے ایران سے اہم لاجسٹک سپورٹ حاصل کی جہاں سے اس نے اپنی کوششوں کو قریب سے مربوط کیا اور بنیادی طور پر اپنی لیبر فورس کے لیے مایوس نوجوان زیادہ بنیاد پرست امل ارکان کو بھرتی کیا۔
فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت نے آئی ڈی ایف کو انتہائی مایوس کیا ہے۔ اسرائیلی دفاعی افواج اپنے ایک حدف کو بھی حاصل نہیں کرپائی سوائے فلسطینی عوام، بچوں اور بوڑھوں پر ہزار کلو گرام سے بھی وزنی بم گرانا۔ اب اپنے اتحادیوں سے مزید مالی اور دفاعی مدد لینے اور اپنی عوام کے مورال کو بلند رکھنے کی خاطر نیتن یاہونے لبنا ن کے محاذ کو ایکٹو کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ لبنان نے بھی اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے جواب میں اسرائیل اور لبنان کی سرحد کو گرم رکھا ہوا ہے۔ لیکن اس سارے تناظر اور ماضی میں لبنان کے ہاتھوں بری طرح شکست کے بعد اسرائیلی سیاسی اور دفاعی قیادت کو سو بار غور و فکر کرنا ہوگا کہ آیا وہ لبنان سے دوبارہ شکست کھانے کو تیار ہیں۔ کیا اسرائیل ایک اور مس ایڈونچر کرنے کے لیے تیار ہے؟