Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Kardes

Kardes

کردز

ترک اسپیشل فورسز کمانڈ کے اعلی تربیت یافتہ فوجیوں نے گذشتہ ماہ اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے صدر دفتر تربیلا کا دورہ کیا۔ یہ فوجی ایس ایس جی کمانڈوز کے برابر جانے جاتے ہیں۔ ترک فوج یورپی فوجوں کے مقابل بہترفورس سمجھی جاتی ہے۔ یونان کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں سے ایک نے ترک فوج کی برتری پر مہر ثبت کی ہے۔ تر ک اسپیشل فورسز کمانڈ کے حالیہ دورے کے مقاصد میں باہمی مفادات اور مشقوں کے بارے میں بریفنگ شامل ہیں۔ یہ تربیتی مشقیں تین ہفتوں تک جاری رہیں گی۔ پاک ترک فورسز ایک دوسرے کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے مہارت اور حکمت عملی بھی سیکھیں گی۔ پاک ترک اسپیشل فورسز کی مشقوں میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنا، دوبدو مقابلہ، تلاشی آپریشن اوردشمن کی نشاندہی، فائرنگ اور بچنے کی تکنیکس، ریسکیو آپریشن وغیرہ شامل ہوں گے۔ یہ فوجی تعلقات جن کا آغاز 2000 میں ہوا مسلح افواج کے تربیتی تبادلے کے پروگرام سے منسلک ہیں۔

ترکی ان اعلی درجے کے ممالک میں شامل ہے جو ڈرون اور لڑاکا جہاز بنانے میں خود کفیل ہیں۔ اس کے ساتھ ترکی پاکستان سے اسلحہ بھی درآمد کرتا ہے۔ ادھرپاکستان آرمی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ماہر ہے۔ آپریشن اینڈیورنگ فریڈم، المیزان، زلزلہ، شیر دل، راہ حق، راہ راست، راہ نجات، ضرب عزب اور ردالفساد نےہماری ا فواج کو تجربہ کار اور انسداد دہشت گردی میں کامیاب بنا دیا ہے۔ پاکستان کو جلد ہی 2018 میں دستخط کیے گئے معاہدے کے حوالے سے ترکی سے لڑاکابحری جہاز ملیں گے۔ پاکستان، ایران اور ترکی ریلوے کے ذریعے تجارت کا آغاز کریں گے۔ اس سے بلاواسطہ پاکستان اور پھر چین کو فائدہ ہوگا۔ ریل کے ذریعے یہ تجارت یورپ کے لئے نئے تجارتی راستے کھولے گی اور پاکستان کو یورپ میں داخلے اور تجارت کا نیا راستہ میسر ہوگا۔

اسلامی ریاستوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے اور ان میں سے کچھ ممالک کے اسرائیل کو ریاست تسلیم کرنے میں سعودی کردار اور دباؤ اب پوشیدہ نہیں رہا۔ اس عمل نے بہت سے اسلامی ممالک خصوصا فلسطین میں سعودی عرب کے خلاف نفرت پھیلائی اورفاداری میں شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں۔ اس کردار کے پیچھے خطے میں ایرانی عمل دخل کو کم کرنا اور اپنے آپ کو منوانا بھی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین اسلامی دنیا کا واحد رہنما بننے کی دوڑ نے اسلامی ریاستوں کو کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اسی کشمکش نے دونوں ریاستوں کو مختلف ممالک میں جاری خانہ جنگی کی طرف راغب کیا۔ یمن اس کی مثال ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں اسرائیلی اثر و رسوخ دن بدن بڑھتا جارہا ہےجس کا ادراک سعودی بادشاہت کو نہیں ہورہا۔ اس اثر کےنتائج جلد ہی ظاہر ہوجائیں گے۔

وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ترکی اور بدلے میں ترک صدر کا دورہ پاکستان نے پاک ترک تعلقات کو مضبوط کیا۔ پاکستان کے عوام ترکوں کے احسان مند رویے سے مشکور ہیں اور اکثر بھائیوں جیسا احترام رکھتے ہیں۔ پی ٹی وی کے ذریعے اردو ترجمہ میں ترک ٹیلی ویژن سیریز ارتغرل غازی کو پیش کیا اور پاکستان میں بڑی مقبولیت حاصل کی اور دو ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے۔ لیکن سعودی سیریز کنگڈم آف فائر ترکی ڈرامہ سیریز کا ایک بدلہ ہےجو مسلمانوں میں نفرت اور خانہ جنگی جیسے جذبات ابھارتا ہے۔ اعلی سطح پر اردگان ان عالمی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنھیں پاکستانی پارلیمنٹ میں تقریر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ دونوں ممالک نے شہریت کے اقدام کے تحت دوہری شہریت کا اعلان کیا ہے۔ اس اقدام سے پاکستان اور ترکی کے شہریوں کو مشترکہ شہریت اور دوہری پاسپورٹ حاصل ہوں گے۔

کشمیر تنازعہ پر ترکی کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ ترکی اس مسئلے پر پاکستان کے ساتھ کھڑاہے اور اردگان نےکشمیر پر پاکستان کے موقف کی کھلے عام حمایت کی۔ انقرہ نے دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر پر غیر قانونی قابض ہندوستان کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ ترک سفیر کا آزاد کشمیر میں قیام اور بھارت کے ساتھ جنگوں کے دوران ہر ممکن پلیٹ فارم پر پاکستان کی حمایت متحدہ اسلامی دنیا کے ترک عظیم وژن کی علامت ہے۔

بین الاقوامی برادری میں ترکی نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں پاکستان کی حمایت کی۔ ترکی مالی معاملات پر پاکستان کے ساتھ بھی شامل ہوتا آیا ہے۔ پاکستان میں ترکی سرمایہ کاری کو جاری رکھنے کے لئے ایک سازگار بنیاد ملی ہے۔ دونوں ممالک نے ناگورنوکاراباخ معاملے پر آذربائیجان کی سفارتی حمایت کی۔

اسپیشل فورسز کے دورے سے بھارت، اسرائیل، امریکہ اور عرب ممالک کو ایک پیغام جاتا ہے۔ ترکی کا پاکستان کے قریب ہوناسعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کیلئے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ آل سعود معاہدہ سیوریس کے خاتمے پر پریشان دکھائی دیتی ہے۔ ترکی کا خطے میں بڑھتا کردار سعودی بادشاہت کیلئے بے چینی ہے۔ سعودی مملکت ترکی کو ایران کےعلاوہ ایک حریف کے طور پر دیکھتی ہے۔ پاک ترک اتحاد ان ممالک کے لئے سازگار نہیں ہے جو ان دونوں کو اپنے مقاصد میں حائل رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یونان، امریکہ اور فرانس دوطرفہ تعلقات کا خیرمقدم کرنے سے قاصر ہیں۔ ایران، روس، چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں نے ان مشقوں پر گرین سگنل دیا ہے۔ مغربی ریاستوں کیلئے یہ رشتہ بہتری کی طرف نئی اسٹریٹجک بصیرت کو بڑھا سکتا ہے۔ ترکی افغانستان میں پاکستان کے کردار کو بخوبی سمجھ چکا ہے۔ مشرق اور مغرب دونوں میں توازن برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کے کردار سے ترکی کو فائدہ ہوسکتا ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz