Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Iran Saudi Sard Jang

Iran Saudi Sard Jang

ایران سعودی سرد جنگ

مملکت سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران مسلم دنیا کے دو بڑے حریف ہیں جن کے درمیان ہونے والی کوئی بھی مزاحمت یا کاروائی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں ممالک گذشتہ کئی دہائیوں سےایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ ان سب جنگوں کے پیچھے چھپے محرکات میں علاقائی بالا دستی، سیاسی و نظریاتی غلبہ اور معاشی بالادستی ہیں۔ ایک اور وجہ مسلم دنیا کی واحد قیادت حاصل کرنے کی خواہش بھی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے ختم ہوتے ہی سعودی عرب وجود میں آیا اور آل سعودجیسے تیسے اس خطے کی تقدیر بن گئی۔ دوسری طرف سعودی عرب کے مشرق میں ایران باوجود کئی مشکلات کے ایک نئی طاقت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ ایرانی خطہ اٹھارہویں صدی میں روسی اور برطانوی حملوں کا سامنا بھی کرچکا تھا۔ دونوں ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ دونوں تیل کے بڑے ایکسپورٹرز ہیں اور انکی معیشت تیل پر کھڑی ہے۔ مگر مختلف اسلامی مسالک کے حامی ہیں۔

سعودی عرب میں سنی اور ایران میں شعیہ مسلک کی کثرت ہے۔ سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ جیسے مقدس مقامات ہیں جن کی وجہ سے اسلامی دنیامیں اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہےاور یہ پوری مسلم امہ کو جوڑے ہوئے ہے۔ جبکہ ایران فوجی طاقت میں بالادست ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ، حماس، حوثی باغی اور کئی فوجی قوتیں مختلف ممالک میں پراکسی جنگیں لڑ رہی ہیں۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی عراق میں ہلاکت نے ایرانی اثر و رسوخ کو بے نقاب کیا ہے۔ تہران تھوڑے عرصے میں اپنی واضح، جارحانہ اور آزادانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے زیادہ فعال، مضبوط اور متحرک ہوچکا ہے۔ اس کے مدمقابل ریاض یہ کامیابیاں حاصل کرنے میں بہت پیچھے رہا ہے۔ یمن میں جاری خانہ جنگی اب سعودی تیل تنصیبات پر براہ راست میزائل حملوں تک پہنچ چکی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے سامنے بھی مداخلت کا آپشن رکھا گیا لیکن بوجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خطے میں دوسرے مسائل سےایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان نے مدبرانہ کردار ادا کرتے ہوئے اس آگ سے دور رہنے کو ترجیح دی اور ان حریفوں کو بھی آگ بجھانے کا کہا۔

ایرانی شعیہ انقلاب اور بادشاہت کے خاتمے کے بعد ایران ایک نئے ملک کے طور پر ابھرا جس میں شدت پسند رجحانات اور دو ٹوک موقف زیادہ تھے۔ ماضی کے تلخ تجربات اور پابندیوں کے حوالے سے ایران نے روس اور چین سے اپنے تعلقات فوجی اور معاشی سرمایہ کاری کے شکل میں مستحکم کیےاور امریکہ اور دوسری طاقتور سلطنتوں کے سامنے کھڑا ہوگیاہے۔ ایرانی معیشت اب بھی سخت پابندیوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ سعودی عرب بھی اس دوڑ میں ایران سے پیچھے نہیں۔ مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک میں سعودی دوست موجود ہیں جو سعودی اثر ور سوخ اور لائحہ عمل کو لبیک کہہ کر من و عن قبول کرلیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سعودی دوستی کا ہاتھ اب اسرائیل تک جاپہنچا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ سعودی عرب کا سب سے گہرا اور مضبوط دوست ہے جو کئی دہائیوں سے عرب بادشاہت کے ساتھ کھڑا ہے۔

شاہ ایران ملک کو جدیدیت کی طرف لے جارہے تھے کہ مذہبی سکالر خمینی نے بادشاہت کا تختہ الٹ دیا اور ایک اسلامی حکومت قائم کی جس کی بنیاد امریکہ اور اسرائیل مرگ باد پر قائم تھی۔ امریکہ اور سعودی عرب نے بڑھتے ہوئے ایرانی اثرو رسوخ کو کاونٹر کرنے کیلئے عراق کو سامنے کھڑا کیا جو ایک خوفناک جنگ کی شکل اختیار کرگیا۔ ایران اس جنگ سے متاثر ہوا لیکن سعودی عرب کی یہ جیت زیادہ دیر نہ چل سکی جب نائن الیون کا واقعہ ہوا اور جہادیوں کا تعلق سعودی عرب سے جا نکلا جس کو سعودی عرب کسی صورت نظر انداز نہ کر سکا۔ ترکی میں سعودی صحافی جما ل خشوگی کے قتل نے سعودی عرب کی ایرانی طرز کی کاروائیوں کو بے نقاب کردیا ہے اور سعودی اسٹیبلشمنٹ کو شرمسار بھی۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکہ کے ساتھ اپنی تجارت بڑھاتے ہوئے جدید اسلحہ خریدا شروع کیا اور اپنے تعلق میں استحکام لے آئے۔ سعودی عرب امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ محمد بن سلمان کا جھکاؤ امریکہ اور اسرائیل کی طرف بڑھا ہے جس سے سعودی خارجہ پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ اس کے اثرات خطے میں موجود اسلامی ممالک کے علاوہ پاکستان میں بھی محسوس کئے گئے ہیں۔

ایرانی نیو کلیئر پروگرام امریکہ اور سعودی عرب دونوں کیلئے ایک بڑی رکاوٹ ہے جس کو روکنے کیلئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایڑھی چوٹی کا زورلگایا اور نیو کلیئر ڈیل سے دست بردار ہوگیا۔ اس سے ایرانی معیشت مزید پستی میں چلی گئی۔ لیکن اب جو بائیڈن کی طرف سے ایک پر امید فضا قائم ہونے کو ہے جس سے ایرانی معیشت پابندیوں سے نکلے گی۔ اسلامی خطے کی اس بالادستی کی جنگ میں ایرانی ٹاپ نیوکلیئر سائنسدان محسن فخری زادہ بھی شکار بن چکے ہیں جن کو نامعلوم افراد نے ہلاک کیا۔ ایران نے اس کا الزام سعودی عرب اور اسرائیل پر لگایا۔

پاکستان اس دوڑ میں کسی کا فریق بننے سے گریزاں ہے جووقت اور عقل دونوں کا تقاضا ہے۔ اسلام آباد کی طرف سے ہمیشہ صلح، امن اور ثالثی پر زور دیاگیا ہے جس سے خطے میں بد امنی اور جنگی ماحول کا خاتمہ ہی وا حد قابل عمل حل ہے۔ دونوں فریقین نے پاکستان کو متعدد بار اپنی طرف کرنا چاہا اور اس سلسلے میں اپنے کئی نیٹ ورک بھی لانچ کرنے کی سعی کرتے رہے۔ ایران و سعودی پراکسی وار پاکستا ن بھی در آئی اور شعیہ سنی فسادات اور فرقہ وارانہ قتل و غارت ہوتے رہے لیکن یہ ملک کو مکمل طور پر شدت پسندی کی طرف نہ موڑ سکی۔ فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے اور مسلکی عدم برداشت کو پھیلانے میں کئی قوتیں پیش پیش رہی لیکن وہ اپنی موت خود ہی مر تی جارہی ہیں۔ یہ روایتی جنگ جاری و ساری ہے جو نئی نئی اشکال اختیار کرتی رہتی ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Pakistan Ke Missile Program Par Americi Khadshat

By Hameed Ullah Bhatti