Saturday, 14 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Gilgit Baltistan Ki Tareekh

Gilgit Baltistan Ki Tareekh

گلگت بلتستان کی تاریخ

گلگت بلتستان پاکستان کا شمالی علاقہ ہے جو اپنی تاریخی، ثقافتی اور قدرتی خوبصورتی کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ افغانستان، چین اور بھارت کی سرحدوں سے ملحق قدیم زمانے سے مختلف تہذیبوں کے درمیان ایک اہم سنگم رہا ہے۔ اس علاقے پر مختلف سلطنتوں نے حکمرانی کی اور ہر دور نے اس کی ثقافت اور شناخت پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ گلگت بلتستان کی تاریخ وسطی ایشیا، تبت، چین اور برصغیر کے اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔

گلگت بلتستان پاکستان کے دفاعی نظام میں ایک اہم مقام ہے۔ یہ علاقہ قراقرم ہائی وے کے ذریعے چین کے ساتھ جڑتا ہے۔ یہی روٹ سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) کا ایک اہم حصہ ہے۔ پاکستان کے اہم دریا، جیسے دریائے سندھ، گلگت بلتستان سے نکلتے ہیں۔ یہ دریا پاکستان کی زراعت اور پانی کی ضروریات کے لیے نہایت اہم ہیں۔ مذکورہ خطہ بلند ترین پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اور گلیشیئرز کی وجہ سے سیاحت کا مرکز ہے۔ سیاحت سےپاکستان کی معیشت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

چین کے لیے گلگت بلتستان ایک اسٹریٹجک علاقہ ہے۔ یہ بھارت کے خلاف دفاعی حکمت عملی میں مدد فراہم کرتا ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان، چین اور بھارت کے درمیان ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں تینوں ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں۔ گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت اس کی دفاعی، معاشی اور سیاسی حیثیت کو غیر معمولی بناتی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ترقی اور استحکام کا ذریعہ ہے، چین کے لیے اقتصادی راہداری کی بنیاد اور بھارت کے لیے ایک اسٹریٹجک چیلنج۔ یہ علاقہ خطے کی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

سلک روڈیعنی شاہرا ہ ریشم ایک عجوبے کے طور پر بھی دنیا کے سامنے ہے۔ یہی روٹ وسطی ایشیا اور برصغیر کے درمیان تجارتی اور ثقافتی تبادلے کا ذریعہ تھا۔ پہلی صدی عیسوی کے مطابق کہا جاتا ہے کہ یہاں سب سے پہلے داردی قوم آباد ہوئی اور بعد میں دیگر اقوام نے یہاں آباد ہوکر اس علاقے کی ثقافت میں رنگ بھرے۔ یہ ابتدائی شاہراہ ریشم تجارت، سیاحت اور تعلیم کے لیے ایک اہم مرکز بن چکا تھا۔

دوسری صدی سے ساتویں صدی تک، بدھ مت گلگت بلتستان میں اہم کردار ادا کرتا رہا جسے مختلف بادشاہوں کی حمایت حاصل تھی۔ اس دور میں یہاں بہت سے بدھ مت کے مندروں اور سٹوپاز کی تعمیر کی گئی۔ ان مذہبی عمارتوں کی تعمیر سے یہ علاقہ تعلیم کا ایک اہم مرکز بن گیا۔ اس دور کے آثار، مثلاً منٹھل اور کارگاہ میں موجود بدھ کے مجسمے اور چٹانوں پر نقش و نگاراس دور کی عظمت کی عکاسی کرتے ہیں۔

تیرہویں صدی کے آس پاس وسطی ایشیائی اور فارسی صوفی مشنرکے ذریعے اسلام یہاں پہنچا۔ رفتہ رفتہ یہاں کے زیادہ تر لوگ اسلام قبول کر چکے تھے اور اسلامی ثقافت نے یہاں کے معاشرے میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ اس دور میں مختلف اسلامی حکومتوں اور قبائلی رہنماؤں نے یہاں حکمرانی کی اور وسطی ایشیا کی اسلامی ثقافت کا اثر نمایاں ہوا۔

سولہویں صدی میں مغل سلطنت نے گلگت بلتستان پر اثر ڈالا۔ اگرچہ دشوار گزار پہاڑی علاقے اور مقامی مزاحمت کی وجہ سے یہاں براہ راست حکمرانی ممکن نہ تھی۔ انگریز راج کے دور میں یہ علاقہ ڈوگرہ حکمرانوں کے زیر کنٹرول آ گیا اور جموں و کشمیر کا حصہ بنا دیا گیا۔ ڈوگرہ حکمرانوں کو یہاں کی قبائلی مزاحمت اور بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے کئی جنگیں لڑنی پڑیں۔

برطانوی نوآبادیاتی دور کے دوران گلگت بلتستان اسٹرٹیجک اہمیت اختیار کر گیا کیونکہ برطانوی سلطنت وسطی ایشیا میں روسی توسیع کو روکنے کے لیے کوشاں تھی۔ "گریٹ گیم" کے نام سے کون واقف نہیں۔ برطانیہ اور روس کے درمیان یہ گریٹ گیم کئی سالوں پر محیط سیاسی، جغرافیائی اور ڈپلومیسی پر مبنی کشمکش تھی۔ آج یہ گریٹ گیم روس، امریکہ اور چین کے درمیان مختلف محازوں پر جاری ہے۔ جاری شدہ گریٹ گیم میں امریکہ چین اور روس سے گتھم گتھا ہے اور اس کا رخ بظاہر شکست کی جانب مڑ رہا ہے۔ 1935 میں برطانوی حکام نے گلگت ایجنسی قائم کی اور ڈوگرہ حکمرانوں سے اسے لیز پر لے کر براہ راست انتظام سنبھال لیا۔ برطانوی سیاسی ایجنٹوں نے یہاں حکمرانی کی اور روس کے قریب واقع علاقوں میں نگرانی رکھی۔

انیس سو سینتالیس میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد گلگت بلتستان تقسیم کی پیچیدگی میں الجھ گیا۔ یہ علاقہ شروع میں ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا، جس کی اکثریت مسلمان تھی۔ یہاں کی آبادی بھارت کے ساتھ شامل ہونے کے خلاف تھی اور انہوں نے ڈوگرہ افواج کے خلاف بغاوت کی۔ یکم نومبر انیس سو سینتالیس کو گلگت سکاؤٹس نے بغاوت کرکے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔

کے تحت چلایا گیا، جس سے اس علاقے کو محدود خود مختاری حاصل تھی۔

انیس سو ستر میں مذکورہ خطے کو بذریعہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے تحت کئی سالوں تک چلایا جاتا رہا۔ اس ریگولیشن کی وجہ سے گلگت بلتستان کو محدود خود مختاری حاصل تھی۔ لیکن اس ڈھانچے کو مکمل آئینی حیثیت حاصل نہیں تھی جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ سیاسی نمائندگی کا مطالبہ کرتے رہے۔

2000 کی دہائی سے گلگت بلتستان میں مختلف اصلاحات کی گئیں۔ دو ہزار نو میں میں پاکستان نے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر متعارف کرایا جس سے یہاں کے لوگوں کو ایک حد تک خود مختاری ملی اور ایک منتخب قانون ساز اسمبلی قائم کی گئی۔ 2020 میں پاکستان نے گلگت بلتستان کو عارضی صوبائی حیثیت دینے کا اعلان کیا جس سے اس علاقے میں مزید ترقی اور سیاسی شراکت کا راستہ ہموار ہوا۔

گلگت بلتستان جغرافیائی لحاظ سے اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کی سرحدیں چین، بھارت اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ چین پاکستان اکنامک کوریڈورکے لیے یہ علاقہ انتہائی اہم ہے۔ سی پیک گوادر پورٹ کو مغربی چین سے ملاتا ہے۔ یہ کوریڈور سینکڑوں کلومیٹر کی لمبائی پر محیط ایک وسیع مقاصد کیلئے بچھائی جانے والی سڑک ہے۔ اس منصوبے سے گلگت بلتستان میں انفراسٹرکچر، توانائی کے منصوبے اور تجارتی مواقع بڑھے ہیں۔ دوسری طرف اس سے اس علاقے کی جغرافیائی حساسیت بھی بڑھ گئی ہے خصوصاً بھارت کے حوالے سے۔ بھارت گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے کا حصہ سمجھتا ہے۔ بھارت کا یہ موقف پاکستان کے خلاف خارجہ پالیسی میں ایک اہم رکن ہے۔

حرف آخر یہ کہ گلگت بلتستان کی تاریخ مختلف ثقافتوں اور حکومتی تبدیلیوں کا مرکب ہے۔ قدیم دور سے لے کر آج تک یہ علاقہ ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے کئی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ جدید ترقی اور جغرافیائی اہمیت نے اس کے مستقبل کو مزید نکھارا ہے اور پاکستان میں اس کا کردار بڑھایا ہے۔ گلگت بلتستان کی مکمل آئینی حیثیت اور نمائندگی کے مطالبات ابھی بھی جاری ہیں اور پاکستان کے لیے یہ ایک حل طلب کیس ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Yar Tum Kaise Manage Karte Ho?

By Syed Mehdi Bukhari