Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Europi Jangein

Europi Jangein

یورپی جنگیں

یورپ پہلی جنگ عظیم کا مرکزی میدان جنگ تھا لیکن دنیا کے دوسرے ممالک اس لڑائی میں دیکھتے ہی دیکھتے کود پڑے اور اپنی سرحدوں کو محاذ جنگ بنادیا۔ یہ ممالک اس وقت کی جدید ریاستوں کی نوآبادیات تھے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ اپنے فوائدو مقاصد اور نام نہاد اتحاد کے لئے جنگ میں شراکت دار بن گیا۔ نہ صرف پہلے ہی لڑنے والے ممالک کی فوجیں حب الوطنی اور حفاظت و تسلسل کا شو چلا کر اپنا اپنا حصہ ڈالتی رہیں بلکہ وہ کلی طور پر ایک تباہی وبربادی کاکھیل کھیلتی رہیں۔ عام شہریوں کو بھی قوم پرستی اور حب الوطنی کی آڑ میں جنگ میں دھکیل دیا گیا۔ نظریاتی ممالک اپنے نظریہ کے حامی عوام کو ان تاریخی جنگوں میں اپنی تاریخ کو بچانے کی خاطر لگا تار لڑائی مول لیتے رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عام شہریوں کو تربیت یافتہ فوجیوں سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہیں حملے اور دفاع کی بہت کم معلومات کے علاوہ تھوڑی بہت تربیت دی جاتی تھی۔

ان انسانی جانوں کے ضیاع میں وسائل بڑے پیمانے پر استعمال کیے گئے کیونکہ فتح ہر لڑنے والی قوم کا واحد مقصد تھا۔ مخالف ریاستوں کے عوام کو جتنا زیادہ نقصان پہنچایا جاسکتا تھا اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتاہے، اس کاحقیقی مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ انسانی جانوں کے قتل عام کے علاوہ خوراک کی کمی بھی جنگی نقصانات میں سب سے زیادہ تھی۔ جنگی ا دوار میں خوف اور غم و غصے جیسی انسانی جبلتوں کا عملی مظاہر پوری طرح سے دیکھا گیا۔ جنگی فوجیوں کو خوراک کم اور انتقامی جذبہ کی خوراک زیادہ دی گئی۔ نسل کشی، لوگوں کو ان کی نسلی، مذہبی، سیاسی، معاشرتی حیثیت یا اس جیسی اصطلاحات کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر منظم قتل کی وارداتیں ہوتی رہیں۔ یہ پر سوز واقعات پہلی بار 1915 تا 1923 اوردوسری مرتبہ 1939 تا 1945 کے دورانیے میں ہوئے جہاں تاریخ ہی لرز اٹھی کہ انسان ہی انسان کا دشمن بن کے سامنے آیا۔ یہ قوم پرستی کے ذریعہ ایک بااختیار جدید ریاست کا مظہر تھا۔ نسل کشی کی سب سے بہترین مثال ہولوکاسٹ یعنی یہودیوں کا قتل عام تھا۔ اس کے نتیجے میں اقلیتیں نسل کشی کی چھتری میں پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئیں۔

جدید تہذیب نے انسانی نوع کو ختم کرنے کی ایک اور کاوش کا انکشاف ہوا۔ 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری بمباری جدید ریاست کے شیطانی مقاصد کی واضح مثال ہےجس میں انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا۔ اس جنگ نے قوم پرستی کے قومی ریاست کے نظام کو شدید جھٹکے دیے اور وہ اپنی موت آپ مرگیا۔ بعدازاں ان جنگوں سے نو زائدہ قومی ریاستوں کی خودمختاری کو دھچکا لگا اور وہ روس اور امریکہ کےبلواسطہ اور بلاواسطہ ماتحت ہوگئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ روس اور امریکہ کے مابین سرد جنگ نے یورپی، افریقی اور ایشیائی ممالک کو مشرقی اور مغرب کی دو اہم حصوں میں تقسیم کردیا۔ کچھ ممالک روس اور دوسرے امریکہ کے زیر اثر آئے۔ اسی دوران ہمارے ملک عزیز نے بھی قریبی ہمسایہ بلاک کو چھوڑ کر امریکہ کے سپر پاور بلاک میں رہنا پسند کیا اور تب سے ماضی قریب تک ہمارے حکمران امریکی چھتری تلے ہی ملک کے خارجی محاذ کی ڈوریں ہلاتے رہے۔ ان دو طاقتور ریاستوں کے ماتحت کئی ممالک کو آگے بڑھنا یا پیچھے ہٹنا پڑا کیونکہ انہیں اپنےآقاؤں کی ہدایت درکار تھی۔

ایک طرف عالمی جنگیں محاذوں پر سراسر تباہی پھیلاتی ہیں اور دوسری طرف یہ سامراجی اور نوآبادیاتی ممالک کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئیں۔ نوآبادیاتی طاقتوں کو اپنے نظریات کی پٹاری اور غیر مہذب انسانوں کو تہذیب سکھانے جیسی اصطلاحات کو ان جنگوں کے آڑ میں اپنی اصل حدود تک سکڑنا پڑا۔ انگریزوں کو ہندوستان، فرانسیسیوں کو ہند و چین، اور روسیوں کو وسطی ایشیائی ممالک اور امریکیوں کو ویتنام سے بے دخل ہونا پڑا، اس کے علاوہ افریقہ میں نئے آزاد ممالک نے جہاں ان سامراجی طاقتوں کو روکنے پر مجبور کیا وہی ایک تکلیف دہ ماضی کے ساتھ اپنا تشخص بحال کیے رکھا۔

یہ جنگیں مکمل طور پر اپنے پر پھیلانے کا ایک بہانہ تھا اور اس سارے خونی کھیل کے پیچھے صرف مطلق العنان حکمرانی کرنے کا ایک منصوبہ تھا اور مذکورہ مقصد کے حصول میں ہر رکاوٹ کو رستے سے ہٹایا گیا۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں، دنیا نے اس زمین پر تسلط کے لئے 6 مدمقابل دیکھے لیکن ان جنگوں نے انہیں دو حریفوں میں بدل دیا۔ امریکہ اور روس نے متعدد ممالک کو اپنے کیمپ میں اثر و رسوخ اور بالادستی کے لئے گھیر لیا۔

کیا مستقبل میں یہ دوحریف ہی آمنے سامنے رہیں گے؟ کیا اکیسویں صدی کے مستقبل میں طاقت کے غلبے کا کوئی واضح نظریہ نہیں ہے؟ یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ غلبے کی دوڑ کس طرف رخ کرے گی۔ کیا امریکہ اپنی بالادستی اور تقویت جاری رکھے گا یا روس آگے بڑھ کراپنے اثر و رسوخ کو بحال کرے گا؟ لیکن اس دوڑ میں اب چین اپنی معاشی طاقت کےبل بوتے پر اگلی سپر پاور بن جائےگا۔ چین نے حالیہ کوروناکے مرض کے خلاف ڈٹ کر اپنی معیشت کو خود ہی سہار لیا بلکہ امریکی لابی و الزام تراشی کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ چین کا افغانستان اور ایران میں قدم رکھنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جہاں پاکستان اسے مضبوط بنیاد اور حفاظتی شیلڈ فراہم کرنے کیلیے تیار ہے۔ افغان امن عمل اب زیادہ دیر کھٹائی میں نہیں رہے گا کیونکہ بائیڈن انتظامیہ اس کے حل کی طرف گامزن ہے۔ گو چین کھل کر اپنی عسکری و سفارتی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرتا لیکن وہ اپنے مقاصد میں حائل رکاوٹوں کو باآسانی عبور بھی کررہا ہے۔ ساوتھ چائینہ سی میں چین کا امریکہ کو انتباہی ردعمل اس بات کی غمازی کرتا ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Gold Jiska Hai, Wo Bhi Hamara Larka Hai

By Asif Masood