Bebas Shahzada
بے بس شہزادہ
مقتول جمال احمد خشوگی 1958 کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک صحافی تھے لیکن انہوں نے واشنگٹن پوسٹ پر کالم لکھے اور العرب نیوز چینل میں بطور مدیر کام کرتے رہے۔ اس کے علاوہ سعودی گزٹ، عکاز، المجالا، المسلیمون اور المدینہ جیسے صحافتی اداروں سے بھی وابستہ رہے۔ وراثتی بادشاہت اور سعودی جبر کے خلاف آواز بلند کرنے، مرد و خواتین کے برابر حقوق کے حصول اور آزادی اظہار کی خاطر خشوگی پر سعودی عرب کی زمین اور زندگی تنگ کردی گئیں اوریوں وہ ملک چھوڑنے پر مجبو ر ہوگئے۔ ترکی میں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران جب وہ اپنی شادی کے کاغذات لینے سعودی سفار ت خانے میں داخل ہوئے تو باہر نہ آسکے اور بے دردی سے سعودی خفیہ ایجنٹس کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے کرکے قتل کردیےگئے۔ اس قتل کا منصوبہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کی ایما پر بناجو بہت جلد بے نقا ب ہوا۔ قتل کے اس خفیہ آپریشن میں شامل ایجنٹس رائل گارڈز کا حصہ تھے جن کا واحد مقصد خشوگی کو "پکڑو یا قتل کر و" کرنا تھا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی پشت پناہی اور رضامندی امریکی قومی خفیہ ادارےکے ڈائریکٹر کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ سے عیاں ہوگئی ہے۔
سعودی حکومت اور چند اسلامی ممالک نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کردیااور سعودی حکومت کی تفتیشی عمل میں انصاف پسندی کی حمایت کی لیکن یہ بیانیہ اب امریکہ جیسے ملک اور عالمی برادری کو مزید الو نہیں بنا سکتا۔ خشوگی قتل کے فوری بعد سعودی حکومت نے لاعلمی کا اظہار تو کیا لیکن بین الاقوامی پریشر اور رپورٹس نے یہ سب ہوا میں اڑادیااور سعودی شہزادے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بلآخر محمد بن سلمان کا پورے خطے میں واحد اسلامی قائد بننے کا خواب چکنا چور ہو رہا ہےجس کو وہ اقتدار میں آتے ہی پورا کرنے کی دوڑ میں تھے۔ سعودی بادشاہت نے پچھلے کئی برسوں سے ایران، شام، یمن اور عراق میں اپنے اثر و رسوخ کا پھرپور استعمال کرتے ہوئے متعددفائد ے اٹھائے لیکن اب یہ علاقائی بالادستی زیادہ دیر نہیں چلتی نظر نہیں آتی۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے یمنی محاذ پر سعودی حمایت ختم کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ یمن میں اب تک لاکھوں یمنی شہری لقمہ اجل اور فاقہ کشی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ 2019 میں امریکی سینیٹ نے امریکی حکومت کویمن میں جاری جنگ میں سعودی ساتھ نہ دینے کا بل منظور کیا تھا۔ بدلتا ہوا امریکی رویہ سعودی عرب کیلئے پریشانی کا باعث بنےگا کیونکہ بین الاقوامی برادری میں سعودی بادشاہت امریکی دوستی کی چھتری تلے بہت فائدے اٹھاتی رہی جس کا عکس خطے میں سعودی کردار اور بدامنی کی صور ت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
محمد بن سلمان خالص ذاتی و سعودی مفاد کی خاطر اسرائیل کو تسلیم کروانے کیلئے بیشتر اسلامی ممالک پر دباؤ ڈالتے رہے جن کے نتیجے میں مٹھی بھر اسلامی ممالک نے اسرائیل کو بطور ملک تسلیم بھی کر لیا۔ پاکستان پر بھی پچھلے سال اسی قسم کا دباؤ رہا لیکن وزیر اعظم عمران خان نے اس دباؤ اور اسکے پیچھے پنہاں مقاصد کے آگے جھکنے سے صاف انکار کردیا۔ پاکستان کے دوٹوک موقف پر سعودی حکومت خاصی ناراض محسوس ہوئی۔ اگست 2019 کے بھارتی اقدام پر سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ اس طرح نہ دیاجس طرح پاکستان حکومتیں ہر آڑے وقت میں سعودی بادشاہت کے ساتھ کھڑی ہوتی رہی۔ جموں و کشمیر پر بھارتی غیر قانونی قبضے پر سعودی عرب لیت ولعل سے کام لیتا رہااور کھل کر پاکستان کے موقف کی حمایت میں شامل نہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں جب پاکستان نے دباؤ کا رخ سعودی عرب کی طرف کیا اور ایک آزاد وزرا خارجہ میٹنگ بلانے کا عندیہ دیا توتب جا کر سعود ی عرب نے پاکستان کے موقف کی ڈھکے چھپے حمایت کرتے ہوئے او آئی سی کے اجلاس میں کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ پاکستان نے خالص اسلامی بھائی چارے اور برادر اسلامی ملک کے طور پر بار ہا اپنی خدمات پیش کیں لیکن سعودی عرب نے بھارت میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کرتے ہوئے دہائیوں کےپاک سعودی تعلق میں دراڑ ڈال دی۔
گزشتہ برس دسمبر کے پہلے ہفتے میں سعودی فضائیہ کے اہلکاروں میں سے ایک نے فلوریڈا کے تین امریکی بحریہ اہلکاروں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ اب امریکی تحقیقاتی ادارےایف بی آئی نے زیر تربیت سعودی فضائیہ کے اہلکاروں کو ملک سے نکا لنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ محمد بن سلمان کو مزید تنہا کرنے کا سبب بنے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی سعودی بادشاہت پر تنقید کرتے ہوئے کہہ چکے کہ امریکی فوجی سہارے کے بغیر سعودی حکومت دو ہفتے چلے گی اور نہ ہی سعودی بادشاہ سلمان اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ سعودی خطہ آج تک امریکی ا فواج کی موجودگی میں ایران اور دوسرے ممالک سے پراکسی وار لڑتا رہا۔ سعودی فوج ایک طرف پاکستان اور عراق اور دوسری طرف امریکی فوجی امداداور تربیت پر کھڑی نظر آتی ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان کے ساتھ تعلقات کواستوار کر تے کرتے بھارتی کیمپ میں جابیٹھے، ایران کے خلاف سرد جنگ میں اپنے طاقتور ساتھی امریکہ سے بھی دور ہو رہے ہیں۔ ترقی کے کردار کومحدود کرتے کرتے جمال خشوگی قتل کے سامنے بے بے نقاب ہوئے۔ اپنے علاقائی اثر و رسوخ اور چودھراہٹ کو مزید پھیلاتے پھیلاتے اب یمن میں حوثی باغیوں کے سامنے ہارتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کشیدگی اور بے چینی میں ایک بار پھر سعودی عرب کو پاکستان یا اسرائیلی ساتھ کی ضرورت محسوس ہوگی جو اشد ضروری اس لیے بھی ہے کہ سعودی عرب خطے میں جاری بے یقینی اوربد امنی کو ختم کرنے، اپنے حریفوں سے نمٹنے اور اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کیلئے تنہا سب کچھ نہیں کرسکتا۔