Asad Durrani
اسد درانی
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی پاکستان کے سابق چیف آف انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) تعینات رہے ہیں۔ بطور ایک انٹیلیجنس چیف درانی ایک اہم عسکری شخصیت بھی ہیں جنہوں نے اپنی فوجی زندگی کے دوران نہایت اہم عہدے سنبھالے۔ 1941 میں پیدا ہونے والے درانی نے پاکستان ملٹری اکیڈمی سے گریجویشن کے بعد اپنی فوجی زندگی کا آغاز کیا۔ انہوں نے پاکستان آرمی میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں اور متعدد اہم مواقع پر اپنی عسکری صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
اسد درانی کی فوجی زندگی کا اہم دورانیہ اس وقت شروع ہوا جب انہیں 1990 میں آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ اس عہدے پر انہوں نے ملکی سلامتی کے اہم امور جیسے افغانستان کے ساتھ تعلقات اور بھارت کے ساتھ تنازعات میں اپنی پالیسیز کا مظاہرہ کیا۔ اس دوران انہوں نے افغان جہاد اور کشمیر کے معاملات پر بھی اپنے عسکری دانش سے اثرات ڈالے۔ ان دو محاذوں پر کام کرنے سے انہیں بین الاقوامی سطح پر ایک متنازعہ شخصیت بنا دیا جو ایک ناانصافی ہے۔
درانی کی عسکری خدمات کے دوران ان کے تعلقات اور مختلف واقعات نے ان کی شخصیت جہاں ایک متنازع بنایا وہیں ان کو ایک منفرد مقام بھی دیا۔ انہیں 1993 میں پاکستان کے ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا۔ اس دوران انہوں نے خفیہ اطلاعات اور ملکی سلامتی کے شعبے میں اپنی مہارت کا خوب استعمال کیا۔
فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسد درانی نے صرف یونیفارم ہی اتارا۔ وہ ادبی میدان میں بھی ملکی سلامتی اور دیگر پروفیشل ذمہ داریوں کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے رہے۔ انہوں نے کئی اہم کتب لکھیں جن میں ان کی فکری اور تجزیاتی صلاحیتیں نمایاں ہیں۔ ان کی کتاب "پاکستان: اے ڈرفٹ" میں پاکستان کے سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں انہوں نے پاکستان کی داخلی و خارجی پالیسیوں پر کھل کر بات کی اور ملک کی سمت درست کرنے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔
ایک اور اہم کتاب "اسپائی کرونیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الیوزن آف پیس" ہے۔ یہ کتاب انہوں نے بھارت کی خفیہ ایجنسی "را" کے سابق چیف اے ایس دلت کے ساتھ مشترکہ طور پر لکھی۔ اس کتاب کو ایک مشترکہ ایڈوینچر بھی کہا جاسکتا ہے جس میں دونوں عہدیداران نے کھل کر اپنی پروفشنل صلاحیتیوں اور اس وقت کی انٹیلیجنس پر بات کی۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں پر کھل کر بات کی گئی ہے اور یہ امن کے تصور پر مبنی ہے۔ اسی کتاب کے سبب پاکستان میں ان کی شخصیت ایک بار پھر زیر بحث آئی اور انہیں ناپسندیدہ عناصر سے منسلک بھی کیا گیا۔
اسد درانی کی کتب ان کے فوجی تجربات اور ان کے سیاسی تجزیوں کا عکاس ہیں۔ ان کتب میں وہ پیچیدہ مسائل کو ایک منفرد نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔
اسد درانی کی زندگی کا عسکری سفر ان کی بے مثال پیشہ ورانہ مہارت اور غیر روایتی حکمت عملیوں کا مظہر رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران کئی اعلیٰ سطحی عہدے سنبھالےجن میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس اور بعد میں آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل شامل ہیں۔ درانی کی سربراہی میں آئی ایس آئی نے پاکستان کی داخلی و خارجی پالیسیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت کے مخصوص حالات میں درانی نے افغانستان کے مجاہدین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور بھارت کے ساتھ خفیہ پالیسیوں کو استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
درانی کی عسکری زندگی کا ایک اہم واقعہ مہران گیٹ اسکینڈل بھی ہے۔ اس واقعہ میں الزام عائد کیا گیا کہ آئی ایس آئی نے پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے مالی امداد فراہم کی۔ اس اسکینڈل نے پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سوالات کھڑے کر دیے اور درانی کا نام اس معاملے میں براہِ راست سامنے آیا۔ بعد ازاں عدالت میں اس حوالے سے ان کی طلبی بھی ہوئی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد درانی نے اپنا وقت لکھنے اور مختلف فورمز پر اپنی آرا کے اظہار میں صرف کیا۔ ان کی تحریریں اور بیانات نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی زیرِ بحث آئے۔ ان کی کتابیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، بھارت، افغانستان اور بین الاقوامی پالیسیوں کے حوالے سے نکتہ نظر پیش کرتی ہیں۔
کتاب "پاکستان: اے ڈرفٹ" میں درانی نے ملکی نظام کی ناکامیوں اور معاشرتی مشکلات کا تجزیہ کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے پاکستانی سیاست، معیشت اور سیکیورٹی پالیسیز پر بات کی ہے اور ملک کے اندرونی مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے حل تجویز کیے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو داخلی استحکام، سیکیورٹی اور جمہوری اداروں کے کردار میں بہتری لانا ہوگی۔
ان کی دوسری اہم کتاب "اسپائی کرونیکلز را، آئی ایس آئی اینڈ دی الیوزن آف پیس" پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے پس پردہ تعلقات، آپریشنز اور پالیسیز کا عمیق جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس کتاب نے پاکستان اور بھارت دونوں میں بحث و مباحثے کو جنم دیا۔ اس کی اشاعت کے بعد اسد درانی کو کئی متنازع حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ان کے اس اقدام کو ناپسند کیا اور انہیں چند بار وضاحت بھی پیش کرنا پڑی کہ ان کا مقصد امن اور مفاہمت کا فروغ تھا۔
درانی کی یہ دونوں کتابیں ان کے پیچیدہ سیاسی و عسکری تجربات، خفیہ پالیسیوں اور بین الاقوامی تعلقات پر ان کے منفرد تجزیے کی عکاس ہیں۔ انہوں نے ان کتب کے ذریعے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور بین الاقوامی طاقتوں کی پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ ان کے خیالات اکثر تنازعات کو جنم دیتے ہیں مگر وہ کھل کر اپنی بات کہنے کے قائل ہیں۔ اسد درانی کی تحریریں ان کی غیر روایتی سوچ اور دنیا کو ایک وسیع نظر سے دیکھنے کی عکاسی کرتی ہیں اور وہ یہ مانتے ہیں کہ پاکستان کو بیرونی دباؤ اور داخلی کمزوریوں سے نجات کے لیے ایک آزاد و مضبوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔