Quetta Ka Imdad Chowk Aur Mara Hua Kutta
کوئٹہ کا امداد چوک اور مرا ہوا کتا
کہتے ہیں کسی گاؤں میں ایک کنواں پانی کے حصول کے لیے پورے گاؤں کا واحد ذریعہ تھا، اس سے پورے گاوں کا معاش اور ضروریات، بیٹھک جڑے ہوئے تھے۔ قریب ہی حکیم کی دکان، بازار، چوپال بھی واقع تھے اور شہیلی ہمجولیوں کا پنگھٹ بھی یہی تھا۔ غرض اس گاوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ ایک روز ایک آوارہ کتا اس میں گرا۔ کوشش کے باوجود جانبر نہ ہو سکا اور اسی کنویں میں مر گیا۔ اب گاوں کے اِس واحد پانی کے ذخیرے میں بدبو اور بدمزگی آگئی اور سبھی لوگ بہت فکر مند ہو گئے کہ کیسے کنویں کے پانی کو پاک و صاف کیا جائے۔
آخرکار اتفاقِ رائے سے گاؤں کے دو تین سمجھدار لوگ یہ مسئلہ ساتھ کے گاؤں کی جامعہ مسجد کے مولوی صاحب کے پاس لے گئے۔ مولوی صاحب نے اُن کی پوری بات سنے کے بعد شرعی نقطۂ نظر سے مسئلے کا حل بتایا اور کہا کہ "کنویں میں سے سارے پانی کو باہر نکالو تو کنویں کا پانی پاک ہو جائے گا"۔
چونکہ گاؤں کے لوگ اپنے کاموں کی مشغولیت کے باعث اور اپنی مصروفیات کے باعث ایک بار مل کر کنویں سے پانی نکالنے کے لئے اکٹھے ہوئے جلد از جلد اس سے فارغ ہوئے اور پھر اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے۔ لیکن پانی کی بدبو اور بد ذائقہ پن بڑھتا جا رہا تھا۔ لوگوں نے پھر مولوی صاحب سے رجوع کیا اس انہوں نے ارشاد فرمایا۔ کنوئیں کا تمام پانی نکال لو اور کنواں صاف کر دو پاک اور صاف ہو جائے گا۔ لوگوں نے بے دلی سے پھر اکٹھ کیا اور ایک بار پھر کنویں سے تمام پانی نکالا۔ اس پر مرمت کی، اس کی دیوار بنائی۔ اندر اور باہر چونا بھی کر دیا۔ مگر اب تو کنوئیں کے پاس سے گزرنا بھی مشکل ہوگیا۔ کیونکہ بدبو سے پورے کنوئیں کے قریب جانا ممکن نہ رہا۔
ایک بار پھر گاؤں کے سول انجنئیر چاچا بخشو، محکمہ آب پاشی اور ماہر کنوئیں ماما جبار اور پلاننگ اینڈ ڈیلوپمنٹ کے ماہر چاچا میر بخش نے قریب واقع حکیم نورتن اور دائی پروین کو قریب سے گزرنے والی ریلوے لائین کے ایک چھوٹے ہوٹل پر بلایا اور کہا دوستو۔ ہماری بھاگ دوڑ نے رنگ دکھایا، ہم نے کنوئیں کی صفائی بھی کر دی، اس کا رنگ روغن اور مرمت بھی کر دی۔ شہری بابو نے اس کے گرد پکا سیمنٹ کا فرش بنانے کا وعدہ بھی کر دیا اور MPA صاحب نے یہاں تک سولر بجلی لگانے کا وعدہ بھی کر دیا ہے۔ لیکن روز بروز پانی میں بدبو، بدمزگی اور اب تو کنوئیں کے قریب سے گزرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ کیا کیا جائے۔ تو آپا پروین جس کا کلینک نما کوٹہ کنوئیں کے قریب تھا۔ بولی میرے گاہک تو اب یہاں قریب آ کر بیٹھ بھی نہیں سکتے کہ بدبو بہت ہے۔ اسی طرح حکیم بولا کل میں نے دوائی بنائی تو اس کنوئیں کے پانی کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو دوائی نے فائدے کی بجائے نقصان دے دیا۔ اب ایک بار پھر بڑی مسجد کے مولوی سے پوچھ کر آتے ہیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے اس کنوئیں پر کسی جن کا سایہ ہوگیا ہے۔
آنے والے جمعے کی نماز کے بعد وہ لوگ مولوی صاحب کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے اور گاؤں والوں کی طرف سے شکریہ ادا کیا کہ اُن کی راہنمائی میں کنویں کا پانی پاک تو ہوگیا ہے۔ لیکن بدبو نہی جاتی۔
مولوی صاحب نے دریافت کیا کہ "کیا انہوں نے مرے ہوئے کتے کو بھی کنوئیں سے باہر نکال دیا تھا؟"
تو وہ دائیں بائیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں یوں جھانکنے لگے جیسے انہوں نے یہ بات پہلی بار سنی ہو، تبھی ایک صاحب گویا ہوئے، "نہیں مولوی صاحب! کتے کو تو ہم باہر نہیں نکال سکتے، کیونکہ کنواں کافی گہرا ہے تو اِس لیے یہ ناممکن ہے"۔
تب مولوی صاحب غصے میں گرج کر بولے، "ارے احمقو! جب تک کتے کو باہر نہیں نکالو گے قیامت تک کنویں میں سے پانی نکالتے رہو، اُسکا پانی پاک نہیں ہوگا"۔ بدبو اور ذائقہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ گاون کے یہ تمام سول انجنئیر اور اعلی دماغ جو گاوں کے عوام کے خرچے پر یہ مشورہ کرنے آئے تھے۔ بہت حیران ہوئے اور سوچ میں پڑ گئے کہ اب گاؤں والوں کو کیا منہ دکھائیں کہ ان کے مشورے اور وژن نے غریب عوام کو ترقی کے نام پر اتنا خرچہ کرایا دیا ہے۔
اب مولوی صاحب سے ڈانٹ کھانے کے بعد گاؤں گئے اور لوگوں کو بتایا کہ اصل مسئلہ کتے کا ہے۔ جسے پانی سے نہیں نکالا گیا۔ لہذا اب ایک ادارہ ایسا بنایا جائے اور چند افراد اس کام کے لئے پہلے رکھے جائیں تاکہ کنوئیں میں سے پہلا مرا کتا نکالا جائے اور دوبارہ کتے کی رسائی ممکن نہ ہو۔ لہذا کنوئیں کے گرد باڑ لگا دی جائے اور یہاں تک پہنچنا بغیر اجازت ممکن نہ ہو دو گارڈ صبح اور رات کی ڈیوٹی پر مامور کر دئے جائیں اور ان پر ایک سپروائزر مقرر کیا جائے جو یہ ممکن بنائے کہ کتا پانی پینے نہ آئے۔ لہذا پانی بھرنے کا پرمٹ ہو اور ہر آنے جانے والے سے کنوئیں کا راستہ الگ کر دیا جائے۔
خیر سنا یہ ہے کہ ابھی تک وہاں ترقیاتی کام جاری ہے اور لوگ پانی کو ترس گئے ہیں البتہ بدبو اور گندے پانی کو بار بار نکالنے سے وہاں اب گزرنا مشکل ہے۔
کئی سالوں کے بعد کوئٹہ شہر کی جان امداد چوک پر رہنے کا اتفاق ہوا۔ 2008 یعنی آج سے17 سال قبل اس امداد چوک کی ناقص کارکردگی۔ یہاں پر نکاسی آب کے مسائل اور اس کی تزئین و آرائش کے نام پر اس پر آنے جانے والے نصف کوئٹہ کی زندگی اجیرن ہونا شروع ہوئی تو ہم نے اس راستے اور علاقے کو خیر آباد کہا اور شہر کے دوسرے کونے میں آباد ہو گئے۔ شومی قسمت، بقول لتا جی۔۔
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہوئی جہاں پر
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
دوبارہ امداد چوک کے قریب رہنا پڑا، امداد چوک بدبو، نالی اور اردگرد موجود پرائیوٹ کلینک اور ہسپتالوں کے فضلے اور شہر کے سیوریج کے پانی کا تالاب ہے۔ یہاں سے گزرنے کے بعد کپڑوں کی طہارت مشکوک ہو جاتی ہے۔ گاڑیاں، رکشے موٹر سائیکل سب آپس میں تمام دن سر جوڑ کر کھڑے رہتے ہیں صرف اس چوک کے جو کہ ایک جنکشن ہے سے گزرنے میں کم از کم 20 منٹ اور زیادہ سے زیادہ 2 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ جبکہ شہر کے اعلی دماغ حکام اس چوک کی تزئین و آرائش کے کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ پچھلی صدی سے جاری ہے۔ ہر طرح کی جدت اس چوک پر آزمائی جا چکی ہے اور آزمائی جا رہی ہے۔
پولیس کی ایک فوج اس چوک پر سے ٹریفک گزارنے میں ناکام ہے۔ کلینک اپنے مریضوں کی گاڑیاں پارک کرانے میں ناکام ہیں۔ چونکہ کلینک اچھے کاروباری مراکز ہیں تو ریڑھیوں والے بھی اردگرد کھڑے سڑک کو بلاک کرکے کاروبار کر رہے ہین۔ ساتھ ہی گنے کے جوس کی دکانیں، یہاں سے اٹھنے والی مٹی گرد ملا جوس اور مشروبات بیچ رہی ہین۔ البتہ پلاننگ والے اس چوک پر اب شاید سولر بتیاں اور سڑک کو نئے سرے سے بنا رہے ہیں۔ اللہ معاف کرے جب باران رحمت ہو جائے تو یہ علاقہ ایک ندی بن جاتا ہے۔ جہاں سے گزرنا گاڑی والوں کے لئے بھی ایک آزمائش ہے۔
میری تمام ارباب اختیار کوئٹہ سے گزارش ہے کہ تمام جدید ترین آلات اور کثیر رقم کے استعمال سے قبل اگر اس چوک سے مرا ہوا کتا (کلینکس، ہسپتال، دور کر دئے جائیں) اور صرف چوک کو کھلا کر دیا جائے اور اس کے اطراف میں موجود گٹر کھول دئے جائیں، یہاں چوک پر ریڑھیوں کو ہٹا دیا جائے اور سب سے بڑھ کر سڑک جو کہ یہاں گڑہوں کے باعث اب چاند کی زمین جیسی دکھتی ہے، کی صرف مرمت کر دی جائے تو مجھے خدا کی ذات پر کامل یقین ہے کہ جدید امداد چوک بننے سے قبل یہ چوک شہریوں کے لئے کم از کم بروقت اور پاک صاف گھروں تک پہنچنے کا ایک بہتر وسیلہ بن جائے گا۔ مگر کیا کریں، ہمارے پلاننگ اور شہری منصوبہ بندے کے ماہر افراد تزئین و آرائش امداد چوک کرنے پر بضد ہیں جبکہ ایک چھوٹا مرا ہوا کتا اس پورے علاقے کو گزشتہ 3 دہائیوں سے بدبودار سے بدبودار ترین کرتا جا رہا ہے۔ کاش کہ ارباب اختیار پہلے مرا ہوا کتا نکال لیں۔ پھر اسے نیویارک کے مدمقابل سنٹرل اسکوائر بنا لیں گے۔