Kya Aap Abul Hakam Ko Jante Hain
کیا آپ ابو الحکم کو جانتے ہیں
"ابو الحکم" کے معنی فیصلہ کرنے والا، منصف، جج۔ پڑھے لکھے مسلمان جانتے ہوں گے کہ یہ لقب کس کا ہے۔ اچھا اگر نہیں جانتے تو یہ لقب عمرو بن ہشام کا تھا۔ یہ مکہ کا ایک معزز ترین تاجر، سیاستدان اور اتنا تعلیم یافتہ اور visionary شخص تھا کہ اسے اس کے اصل نام کی بجائے عزت اور احترام میں"ابوالحکم" کہہ کر بلایا جاتا۔ اس کا فیصلہ آخری تصور ہوتا۔ اسلامی تاریخ اس ذہین فتین شخص کو "ابو جہل" یعنی جہالت کا باپ کہہ کر تا قیامت یاد رکھے گی۔ اس کے علم کے تکبر، اس کے قوت فیصلہ، اس کی سماجی حیثیت نے اسے رسول کریمﷺکے مد مقابل کھڑا کر دیا۔
ابو جَہل جس بنا پر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں حد سے بڑھتا چلا جاتا تھا اس کی وجہ وہ خود یہ بیان کرتا ہے کہ "ہمارا اور بنی عبدِ مَناف (یعنی رسول اللہ ﷺ کے خاندان) کا باہم مقابلہ تھا۔ اُنہوں نے کھانے کِھلائے تو ہم نے بھی کِھلائے۔ اُنہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی دیں۔ اُنہوں نے عطیّے دیے تو ہم نے بھی دیے۔ یہاں تک کہ وہ اور ہم جب عزت و شرف میں برابر کی ٹکّر ہوگئے تو اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی ہے جس پر آسمان سے وحی اترتی ہے۔ بھلا اس میدان میں ہم کیسے اُن کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ خدا کی قسم ہم ہرگز اِس کو نہ مانیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے"۔ (ابنِ ہشام، جلد اول، ص 337)
یہ ہٹ دھرمی اس لئے آئی کہ اس کے دنیاوی علم کی کثرت نے بھی اس کی تالیف قلب نہیں کی اور وہ نبوت کو بھی کسبی یا مقابلے کی چیز سمجھنے لگا۔ اس کے تمام قریشی سردار اور ساتھی اپنے اپنے سماجی اسٹیٹس اور علم و ہنر کے ماہر تھے۔ اس لئے سرداری کی کرسی پر بیٹھتے۔ وہاں مکہ کی مجلس شوری میں کوئی سفارشی، نااہل سردار نہیں بن سکتا تھا۔ جب تک وہ اپنے قبیلہ کا سب سے بڑا بہادر، معاملہ فہم اور اپنے فن کا پورے عرب میں ثانی نہ رکھتا ہو۔ اسی تفاخر کی وجہ سے یہ عرب اپنے علاوہ باقی تمام کو عجمی کہتے تھے۔ اگر میں آپ سے کہوں اور خود بھی ان سب کے نام یاد کرنے کی کوشش کروں تو شاید ایک دو کے علاوہ باقی تاریخ کی تاریکی کا حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن ہر مسلمان کم از کم 10 سے 15 صحابہ کرام سے واقفیت رکھتا ہے۔
ابو جہل اس کے ساتھی ذہین ترین سرداروں کو علم و فضل کا ماہر مانا جاتا تھا۔ لیکن نہ ان کی موت اچھی ہوئی اور ان کی یاد اچھی ہے اور نہ ہی ان کا آخری انجام اچھا ہے۔
آج کا مسلمان قرآن کو بالکل اسی طرح چھوڑ کر بیٹھا ہے جس طرح یہ سردار قرآن کو پڑھنے سننے سے انکاری تھے۔ نبی محترم کا احترام کرنے سے اعتراض کرتے اور ان کے کام، وحی میں نقطہ چینی اور مذاق کے پہلو نکالتے۔
بس یہاں تک پہنچ کر اپنےاحباب کو مسلمان اور ابوجہل کا فرق بتانا چاہتا ہوں۔ آپ نے دنیا کی تمام ڈگریاں امتیازی نمبروں سے حاصل کی ہوں۔ آپ دنیا کی ایجادات میں مصروف ہوں۔ آپ نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے ڈگری لے رکھی ہو اور ایک کروڑ کا مجمع آپ کا فین ہو۔ لیکن آپ نے قران نہ پڑھا ہو اور آپ کے زندگی کے کچھ پہلو نبی کریمﷺکے فرمان کے تابع نہ ہوں تو یقین کریں۔ ابوجہل جہنم میں جہالت کا سردار ہے اسے وہاں وہ قوم ملے گی جن کے اطوار ابو جہل کی طرح رہے ہوں گے۔ جب قیامت کے دن اللہ کریم رسول کریم کو گواہ کے طور پر پیش کریں گے تو فرمائیں گے کہ
وَقَالَ الرَّسُوْلُ يَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِى اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا (30)
ترجمہ: اور رسول کہے گا اے میرے رب بے شک میری قوم نے اس قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ (الفرقان)
یہ آخری سند ہوگی جس پر شہادت اور گواہی رسول اللہ ﷺ دیں گے۔ سوچیں ہم جو قرآن نہیں پڑھتے۔ نہ پڑھنا چاہتے ہیں باقی تمام علوم کو ہم سیکھ اور سمجھنا فخر سمجھتے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ کریم کے حضور، رسول کریمﷺ اور قرآن کریم ان کے خلاف گواہ بن کر مقدمے کی سماعت ہوگی۔ اس وقت کون اپنے علم و چلاکیوں سے بچ سکتا ہے۔ اسی لئے اللہ نے قرآن کو قیامت کے دن پڑھنے والوں اور نہ پڑھنے والوں کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کرنا ہے۔
یہ تو رحمت العالمین کریمﷺکی مہربانی ہے کہ نماز کی صورت ہر مسلمان کو کچھ قرآن یاد کرا دیا تاکہ قرآن نہ پڑھنے کے الزام سے امت کو بچا لیں۔ اگر ہم ہفتے میں بھی نماز نہ پڑھیں اور قرآن کو جانتے ہی نہ ہوں تو پھر یاد رکھیں۔ ہم بہت پڑھے لکھے ہونے کے باوجود شاید اپنے آقا کریمﷺکی بجائے ابوجہل کی سرداری قبول کر بیٹھے ہیں۔
قرآن پڑھنے کی عادت بنا لیں یہ معاشرے سے انتشار، عدم برداشت اور جہالت کو نکال دے گا۔ یہی مسلمان اور دیگر تمام اقوام کے درمیان واضح فرق ہے جو ہمیں جہنم میں قبیلہ ابوجہل سے بچا لے گا۔ آخر ایک دن مالک کے دربار کی حاضری ہونی ہے۔
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر
تم ہو آپس میں غضب ناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطابیں، وہ خطاپوش و کریم