Chatri
چھتری
بہت سال پہلے میں بابا جی کے ساتھ بیٹھا قہوہ پی رہا تھا۔ مجھے جب کبھی ان ہونے سوالات کرنے ہوتے تو ان کے تہجد کے وقت ان کے لئے چائے یا قہوہ دو بسکٹ کے ساتھ بنا کر لے آتا۔ وہ اس وقت روئی کے ایک سفید گالے یا نیلے آسمان پر سفید بادلوں کے ایک ٹکڑے کی مانند دکھائی دیتے اور اس وقت بہت سے سوالات کا جواب مشاہدے کی صورت کراتے۔ آج جب میں ان سب باتوں سے منحرف ہو چکا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا وہ میرا وہم تھا یا واقعی کوئی روحانی واردات۔ خیر ہم دونوں قہوے کی چسکیوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ میرے دل میں خیال آیا کہ رب تو سراپا رحمت ہی رحمت ہے پھر لوگ کیوں دکھ اٹھاتے ہین۔ تکلیف دیتے ہیں اور تکلیف سہتے ہیں۔ جبکہ کہنے کو سب کا تعلق رب تعالٰی سے ہے مانگتے بھی اسی سے ہیں۔ خاص طور پر مذہبی طبقہ عبادتوں سے اپنے رنگ تک جلا بیٹھا ہے۔ مگر دلوں کی سختی نہیں جاتی۔
اچانک چھت پر بارش کی ٹپ ٹپ شروع ہوگئی۔ ایک مدھر رم جھم شروع ہوا جس کی آواز موسلا دھار بارش کی طرح بالکل بھی نہیں تھی۔ حالانکہ بارش کی جھڑی تسلسل سے تھی۔ بابا جی نے سر جھکایا ہوا تھا۔ تو میں اٹھا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ چاند ایک شاخ کی طرح سکڑ چکا تھا اور موٹے موٹے سے تارے ٹمٹما رہے تھے۔ اس میں بارش؟ مجھے حیرت ہوئی۔ آسمان پر بادلوں کی کوئی ٹکڑی بھی نہ تھی اور بارش کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ موٹے موٹے قطرے۔ مگر جب زمین پر گرتے تو بوندوں کی آواز پیدا نہ کرتے اور زمین بھی خشک تھی۔ اسی حیرانگی کے عالم میں میں نے بابا جی کی طرف دیکھا کیونکہ میں سمجھ گیا یہ کوئی ان ہی کی کارستانی ہے۔
میں واپس آ کر بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ آپ کیا فرماتے ہیں۔ (یہ "فرماتے ہیں" بھی اب کہنے لگا ہوں کیونکہ پہلے میرا تعلق بابے سے ایسا تھا کہ ہم ٹھیک سے اردو نہ بولنے والے لوگ تھے تو میں اکثر کہا کرتا بابا جان "بولتے ہیں" تم لوگ ایسا کرو۔ ایک دن ایک صاحب علم شخص نے سمجھایا کہ بڑے، اور بزرگ استاد کے لئے "فرماتے ہیں" کہا کرو۔ تو بابا جی بہت مسکرائے اور اس صاحب علم ہستی سے بولے (اوہ۔۔ فرمایا) کہ اللہ کے بندے دلوں پر نظر رکھتے ہیں۔ الفاظ پر نظر منافق استاد اور منافق شاگرد رکھتے ہیں جو دونوں کے وقت کا ضیاع ہے)۔
بابا جی گویا ہوئے۔ بارش دیکھی۔ میں نے عرض کی۔ جی بابا جان۔ لیکن عجیب۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ بولے
" بیٹا! یہ رحمت خدا وندی ہے۔ جو یوں برس رہی ہے۔ جب سے یہ کائنات بنی ہے۔ یہ رحمت اسی طرح بہہ رہی ہے۔ اس بارش سے مایوس ابلیس ہے کیونکہ اس کی تکبر کی چھتری نے اسے ڈھانپ رکھا ہے۔ اب وہ ہر انسان کو اس کے اعمال خوشنما کرکے کسی کے جھوٹ کی چھتری کو اس پر پھیلا دیا کرتا ہے۔ کسی کے چوری، کسی کی خیانت، کسی کے تکبر دولت، کسی کے تکبر علم کسی کے تکبر روح، کسی کے تجسس، کسی کی غیبت کی چھتریاں ان پر کھول دیتا ہے۔ پھر وہ ہر لمحہ برستی رحمت سے بھی بھیگتے نہیں۔ ہاں کسی کے پاوں بھیگ جائیں یا کسی کے پائنچے۔ یا کسی کی ابھی چھتری چھوٹی ہو تو کندھے اس رحمت سے بھیگ جائیں یا کوئی اچھائی کام آجائے اور جب تک اس کا اثر ہو وہ چھتری بند رہے۔ لیکن بیٹا ہم اپنے آپ کے ساتھ زیادتی خود کر رہے ہیں۔ رب تو سراپا رحمت ہے۔ لیکن اس دار الشباب کی دنیا میں چھتری اپنی کو خود مختصر کرنا ہے۔ ورنہ یہ لمحے بیت جائیں گے۔