Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salamat Ullah Khan
  4. Pashtun Aur Nasliyat e Hindukush (5)

Pashtun Aur Nasliyat e Hindukush (5)

پشتون اور نسلیات ہندوکش (5)

اس آخری قسط میں ہم یہ دیکھیں گے کہ سعد اللہ جان برق صاحب کے تحقیق کی روشنی میں پشتون کون ہیں اور کہاں سے آئے؟ لیکن اس سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ وسطی ایشیا کا جو کوہ ہندوکش پہاڑی سلسلہ ہے اس سے مختلف ادوار میں مختلف انسانی جتھے اور قبائل نکلتے رہے ہیں۔ اس سلسلے کی وسعت افغانستان، شمالی پاکستان، تاجکستان اور چین تک ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کو عبور کرنے کے بعد ہندوستان شروع ہو جاتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے میں برما کی سرحد سے لے کر ایران تک اور چین سے لے کر روس تک بہت سارے سلسلے مختلف ناموں سے موسوم کیے گئے ہیں۔

برہم پترا سے لے کر کشمیر اور ہنزہ تک اسے ہمالیہ کہا جاتا ہے۔ درمیان میں کشمیر سے لے کر افغانستان تک کے جبل السراج تک کوہ ہندوکش کہلاتا ہے۔ اس سے آگے ایران میں پامیرو، پامیزوس اور کوہ بابا ہے۔ چین کی طرف تیان شان اور قراقرم کے سلسلے ہیں۔ خیبر کے پاس سے جنوب کی طرف مڑ کر یہ سلسلہ کوہ سفید، کوہ سلیمان اور کوہ کسی کے سلسلے بناتا ہوا کیرتھر پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ آج کل اس کے ایک خاص سلسلے کو کوہ ہندوکش کہا جاتا ہے۔

اس غرض کیلئے جب ہم اس پہاڑی سلسلے کو مرکز مان کر نظر ڈالتے ہیں تو مصر، سوزعیلام، سومیر، وسطی ایشیا اور ہند و سندھ میں یکساں تہذیبوں کی ایک زنجیر سی دکھائی دیتی ہے اور ان کے خروج کے زمانے بھی مختلف ہے۔ ایک طرف اگر سومیر کی تہذیب سات ہزار سال پرانی ہے تو مصر کی تہذیب پانچ یا ساڑھے چار ہزار سال قبل مسیح میں ابھرتی ہے اور سندھ کی تہذیب تین، ساڑھے تین ہزار سال قبل مسیح کا پتہ دیتی ہے۔ اس لیے فلپ حتی نے وسطی ایشیا کو جوف الارض یا رحم مادر سے تشبیہ دیا ہے۔

دور جدید کے بہت بڑے مؤرخ ول ڈیورانٹ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے کہ یہی وسطی ایشیا کا علاقہ نہ صرف انسانوں بلکہ بے شمار انواع و اقسام کے جانوروں کو بھی اگلتا رہا ہے۔ اس کے ایک طرف ہند ہے اور دوسری طرف چین اور یہ دونوں آج بھی انسانوں کی آبادی کے لحاظ سے بے پناہ ہیں۔ غرض یہ کہ یہی وہ مخزن یا منبع ہے جس میں 40 کروڑ سال سے ذی روح مخلوقات پیدا، ارتقاء پذیر اور پھر چاروں طرف پھیلتی رہی ہیں۔

میری تحقیق کے مطابق اس پہاڑ اور اردگرد کی زمینوں میں رہنے والی بہت ساری اقوام میں پشتون سب سے قدیم قوم ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ کبھی یہاں سے گئے ہیں اور نہ ہی کہیں سے آئے بلکہ اسی پہاڑی سلسلے اور قرب و جوار میں ہمیشہ رہے ہیں۔ جب اس پہاڑی خطے اور گردونواح سے مختلف انسانی جتھے نکل رہے تھے تو ان سب کی کچھ نہ کچھ باقیات یہاں رہ جاتی تھیں یا تھوڑا سا سفر کر کے اس گرد و نواح میں رہ جاتی تھی۔

مثال کے طور پر آساک یہاں سے نکلے اور مصر تک میں ہیکسوس کے طور پر ظاہر ہوئے لیکن آساک اسی ایسب، ایسپ زئی، اچکزئی، اسحاق زئی اور ساکا وغیرہ کی صورت میں یہاں بھی باقی رہ گئے تھے۔ اسی طرح ختی یا خٹی گئے لیکن یہاں خٹک کے طور پر باقی رہے۔ ہوری یا متانی گئے لیکن یہاں بھی غری، غوری کی شکل میں موجود رہے۔

یہ لوگ چلے گئے اور مختلف حطوں میں خلط ملط ہو گئے لیکن یہاں جو باقی رہے اور اپنے اصل سرچشمے کے آس پاس بستے رہے ان کا مجموعی نام پشتون ہے جسے ہم نسل نہیں بلکہ قوم کہیں گے کیونکہ قوم کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی جد کی اولاد ہو یا ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہو جسے انگریزی قوم، جرمن، عرب، یہودی، امریکی، جاپانی، چینی، ہندی وغیرہ میں مختلف عناصر اور نسلیں ایک رشتے میں منسلک نظر آتے ہیں۔

بعد میں اس پہاڑی سلسلے سے جتنے بھی خروج ہوئے مثلاً ترک، ازبک، ترکمان، کاسک، ہیکسوس، حتی، متانی میدھی، سیتی، یونانی وغیرہ جڑیں تو یہاں رکھتے ہیں، نسلی لحاظ سے پشتونوں کے بھی عزیز ہیں لیکن پشتون نہیں۔ اسی طرح ہند کی طرف پھیلنے والی اقوام مثلاً کھشتری، راجپوت، پنجابی، کشمیری، سندھی، بنگالی، بلوچ وغیرہ بھی نسلی لحاظ سے تو پشتونوں کے عزیز ہیں لیکن پشتون نہیں ہیں۔ پشتون صرف ان کو کہا جائے گا جن کی زبان پشتو ہو اور مخصوص پشتو دستور العمل کے پابند ہو اور یہ پشتون بیلٹ میں ہی مروج ہے۔

دوسری طرف پشتونوں کو کاشی، کوی، روہی، سلیمانی، خان، ساکا، پٹھان اور افغان کے مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے جو کسی خاص زمانے یا لوگوں میں مروج رہے ہیں لیکن رگ وید، اویستا اور ہیروڈوٹس سمیت مختلف یونانی مؤرخین نے لفظ پشتون کی قدیم شکلیں کچھ اور بتائی ہیں۔ رگ وید میں یہ لفظ پکھت کے طور پر آیا ہے۔ اویستا میں بخدی اور بلھیکا آیا ہے۔ ہیروڈوٹس نے پکتویک یا پکتویس لکھا ہے۔

پکھت قبیلہ ایک زمانے سے ہندوکش کے اردگرد کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ اس کا اصل مرکز تو بلخ و باختر تھا اور اس کی نسبت سے اس کا نام بخد، بکت، بخت، پکھت، پکت یا باکتری وغیرہ نکلا ہے۔ پشتونوں کا ذکر پکتی، پکتویس اور پکتاس کا نام تقریباً 1500 قبل مسیح سے تحریروں میں آنے لگا ہے۔ یہاں داریوش کے اس کتبے یا نوشتے کا ذکر بھی ضروری ہے جو بغستان یا بہستون کے مقام پر دستیاب ہوئے تھے۔

یہ لمبے چوڑے نوشتے پہاڑی پتھروں یا ستونوں پر کندہ کرائے گئے ہیں۔ اس کے چوتھے ستون کے 63 ویں اور 64 ویں سطر پر جو عبارت درج ہے اس پر ہمارے ایران اور افغانستان کے مؤرخین نے بہت کچھ لکھا ہے کیونکہ یہ تین سطریں یا مصرعے پشتو زبان میں ہے اور اسکا زمانہ 522 ق م سے 486 ق م تک بتایا جاتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس وقت پشتون بحیثیت قوم اور پشتو بحیثیت زبان ابھر چکے تھے۔

پشتونوں کے ان سب ناموں میں افغان ایک ایسا نام ہے جو زبانوں کے علاوہ تحریروں میں بہت زیادہ آیا ہے اور خصوصاً فارسی عربی ادبیات میں پشتون کو ہمیشہ افغان کہا گیا ہے جس طرح ہند کے اطراف میں پشتونوں کو پٹھان کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ لفظ پشتون میں آپ کسی اور کو شامل نہیں کر سکتے صرف پشتو بولنے اور پشتو دستور العمل والے ہی پشتون کہلاتے ہیں لیکن افغان کے دائرے میں ازبک، تاجک، ہزارہ، ترکمان وغیرہ بھی آتے ہیں۔

اس لحاظ سے پشتون کو ہم قوم کہیں گے اور افغان کو ملت کہیں گے۔ افغان اور پشتون کی وضاحت اگر ہم چند الفاظ میں کرنا چاہے تو یوں ہوگا کہ افغان پشتون سے ذرا بڑا اور وسیع دائرہ ہے جس کے لیے زبان اور پشتو کی مخصوص شناخت ضروری نہیں۔ اس لیے پشتون تو سارے کے سارے افغان ہیں لیکن سارے افغان پشتون نہیں۔ لہٰذا جدید دور میں پشتون کو قوم اور افغان کو ملت کہیں گے اور یہی اصطلاحات افغانستان میں بھی مروج ہیں۔

About Salamat Ullah Khan

Salamat Ullah Khan is a graduate of Political Science & IR from Quaid e Azam University, Islamabad. He writes on Politics, History and Philosophy.

Check Also

Shaitan Ke Agent

By Javed Chaudhry