1.  Home
  2. Blog
  3. Salamat Ullah Khan
  4. Pashtun Aur Nasliyat e Hindukush (3)

Pashtun Aur Nasliyat e Hindukush (3)

پشتون اور نسلیات ہندوکش (3)

دوسری قسط میں ہم نے بنی اسرائیلی نظریہ اور قیس عبدالرشید کے واقعے پر کافی تفصیل سے بحث کی تھی۔ اب ہم ان نظریات کا تنقیدی جائزہ لیں گے۔ سب سے پہلے بنی اسرائیلی نظریہ والے جن ناموں کا ذکر کرتے ہیں جیسے برخیا، ارمیا اور افغنہ وغیرہ جس سے پشتون قبائل بنے، یہ نام سرے سے تورات میں بالکل موجود ہی نہیں ہے جبکہ حوالہ تورات کا دیا جاتا ہے۔ اسطرح دس قبائل کی گمشدگی کا جو واقعہ ہے وہ دراصل ایک استعارہ ہے۔

ہوا یوں کہ اسرائیل میں یربعام کے دور حکومت میں صرف دو قبیلے (قبیلہ بنی امین اور قبیلہ یہوداہ) رہ گئے تھے باقی دس قبائل الگ ہو گئے اور اسرائیلہ کے نام سے الگ سلطنت بنائی۔ اس پر یربعام کے حکومت کے لوگ کہتے تھے کہ ہمارے دس قبائل ہم سے کٹ گئے ہیں اور ہمارے دین کے پیروکار نہیں رہے اسلئے یہ ہمارے گمشدہ قبائل ہیں۔ اس کا مطلب استعاراتی تھا یعنی یہ جسمانی طور پر تو موجود تھے لیکن اب یہودیت سے پھر کر منحرف ہو گئے تھے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ادھورے علم رکھنے والے لوگوں نے گمشدگی کا اصل مطلب لے کر پختونخواء میں پہنچا دیا۔ ایک اور سوال جو یہاں اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر پشتون بنی اسرائیل ہیں تو ان کی زبان (عبرانی) کو کیا ہوا؟ زبان کوئی ایسی چیز تو نہیں کہ ایک منہ سے نکالی اور دوسری لگا لی۔ بدلتے بدلتے زبان کو بہت بڑا عرصہ لگتا ہے اور زبان معدوم ہوتے ہوتے اپنا بہت سارا سرمایہ نئی زبان میں چھوڑ جاتی ہے جس سے نئی زبان میں پرانی زبان کے الفاظ صاف دکھائے دیتے ہیں۔

موجودہ پشتو اور فارسی قطعی ہند یورپی زبانیں ہیں اور ان میں عبرانی زبان کا نام و نشان تک نہیں جبکہ بنی اسرائیل اپنے مذہب اور زبان کو کسی بھی حال میں نہیں چھوڑتے۔ انہوں نے مصر میں مصریوں کے جبر، بابل کی قید اور امریکہ اور یورپ میں سینکڑوں سال گزارنے کے باوجود بھی اپنے مذہب اور زبان کو نہیں چھوڑا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہاں آ کر اپنی زبان اور مذہب یکسر ترک کر دی۔

کچھ لوگ یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ پشتون اور بنی اسرائیل کے رسوم و رواج، خدوخال اور رنگت وغیرہ یکساں ہیں اور ان میں مماثلت پائی جاتی ہیں۔ یہ بہت لغو بات ہے کیونکہ اسطرح تو عرب اور پشتونوں میں بھی کچھ باتیں مشترک ہیں مثلاً انتقام، مہمان نوازی اور پناہ دینا وغیرہ تو اس دلیل سے کیا پشتون عرب ہوئے؟ لہٰذا یہ بات سمجھی جائے کہ رسوم و رواج کا قومیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ چیزیں وقت اور حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔

آخر میں یہ کہ نعمت اللہ ہروی جو شجرہ لے کر آیا تھا، اس نے یہ نہیں بتایا کہ یہ اسے کہاں سے ملا اور یہ کس کے پاس ہزاروں سالوں سے محفوظ پڑا تھا؟ پشتونوں کو بنی اسرائیل کے ساتھ جوڑنے والوں نے کبھی یہ زحمت نہیں کی کہ چلیے پشتون تو بنی اسرائیل ہوئے لیکن خود بنی اسرائیل کون ہیں؟ وقت اور زمان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بنی اسرائیل پشتونوں سے کہیں بہت بعد میں پیدا ہوئے۔ جب پشتونوں کا ذکر یونانی مؤرخ کر رہے تھے تب تک تاریخ میں بنی اسرائیل کا نام و نشان تک بھی نہیں تھا۔

خود بنی اسرائیل کی اپنی روایتوں یعنی تورات، تالمود اور ترگوم وغیرہ میں انہیں حضرت یعقوب کی اولاد بتایا جاتا ہے جو حضرت اسحاق کے بیٹے اور حضرت ابراہیم کے پوتے تھے۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ تاریخ میں بنی اسرائیل بہت بعد میں نمودار ہوتے ہیں جبکہ پشتونوں کا سراغ ان سے بہت پہلے (تقریباً چھ ہزار قبل مسیح) میں بھی ملتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ پشتون بنی اسرائیل کی اولاد ہو۔

قیس عبدالرشید کے افسانے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حضور پاکؐ کی زندگی کا لمحہ لمحہ ریکارڈ پر ہے اور ہر قول و فعل کا تذکرہ کسی نہ کسی صورت میں ملتا ہے لیکن اس واقعے کا اسلامی تاریخ، روایات اور احادیث میں کہیں بھی ذکر نہیں ہوا ہے۔ ایسے کسی واقعے کا کوئی مستند حوالہ موجود نہیں۔ اس واقعے میں خالد بن ولید کا ذکر اور لفظ "بطان" اس افسانے کا راز فاش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر خالد بن ولید خالص عربوں کے ایک قبیلہ "بنی مخزوم" سے تعلق رکھتے تھے جس کا بنی اسرائیل سے دور دور تک کا بھی کوئی تعلق نہ تھا اور اگر وہ اسرائیلی تھے تو ان کو پشتو کیسے آتی تھی؟

دوسری طرف اس نظریے کے مطابق حضور پاکؐ نے ان کو بطان کا خطاب دیا جو کشتی کے سینے یا پیندے کو کہتے ہیں۔ ظاہر ہے جب کوئی کسی کو کوئی خطاب دیتا ہے تو کسی ایسی چیز کا دیتا ہے جو دونوں کیلئے جانی پہچانی ہو اور کسی طرح سے تعلق ہو لیکن یہاں حضور پاکؐ اور عرب لوگ ریگستانی ہیں جبکہ قیس عبدالرشید کے لوگ پہاڑی۔ دونوں کیلئے کشتی ایک نامانوس اور اجنبی ہے اور کیا حضور پاکؐ جیسے فصیح و بلیغ انسان سے ایسا خطاب ممکن ہو سکتا ہے؟

یہ اسلئے بھی جھوٹ ہے کہ تاریخ میں پکت، پکتویس، بخد، بکت وغیرہ جیسے الفاظ کا ذکر قبل مسیح کے ہیروڈوٹس اور زینوفن کے ہاں بھی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت عربوں اور افغانستان کے درمیان ایک مضبوط اور اسلام دشمن پارسی حکومت قائم تھی جس کے ایک بادشاہ خسرو پرویز نے حضور پاکؐ کا نامہ مبارک تک پھاڑ ڈالا تھا۔ اس سے گزر کر اسی کے زیر انتظام علاقے کے کسی وفد کا عرب جانا بڑا مشکل بلکہ ناممکن کام تھا۔

اب آتے ہیں قیس عبدالرشید کے نام کی طرف۔ کہتے ہیں کہ اس کا اپنا نام قیس تھا لیکن حضور پاکؐ نے یہ فرمایا کہ یہ عبرانی نام ہے اسلئے آج سے تمھارا نام عبدالرشید ہوگا۔ بات یہ ہے کہ پہلے تو قیس عبرانی نہیں بلکہ عربی نام ہے اور پھر تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں جس میں حضور پاکؐ نے کسی عبرانی نام کو بدلا ہو۔ تمام صحابہ اور مسلمان ہونے والے اکابرین کے نام وہی رہے جو اسلام سے پہلے تھے۔

سب سے زیادہ حیران کن نام عبدالرشید ہے کیونکہ عبدالرشید، عبدالغفور، عبدالکریم، عبدالمالک، اور عبدالحمید وغیرہ جیسے نام ہمیشہ غیر عرب یعنی عجمیوں میں مروج رہے، یہ عربوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسطرح قیس عبدالرشید کے بیٹوں کے نام، سڑبن، غرغشت اور بیٹ جیسے نام کسی عرب کیلئے ادا کرنا ممکن ہی نہیں۔

سب سے آخر میں یہ کہ قیس عبدالرشید کے وفد میں چالیس لوگ یا سردار اور بھی تھے۔ وہ کہاں گم ہو گئے اور ان کی اولاد کیا کہلائی؟ مزید یہ کہ اس بات کو کیسے ہضم کی جائے کہ 1400 سال کے عرصے میں قیس عبدالرشید سے کروڑوں پشتون پیدا ہوئے، لہٰذا یہ نظریہ کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں۔

About Salamat Ullah Khan

Salamat Ullah Khan is a graduate of Political Science & IR from Quaid e Azam University, Islamabad. He writes on Politics, History and Philosophy.

Check Also

Khari Jharoo, Darbe Mein Billi, Sufaid Chadar

By Azhar Hussain Azmi