Pashtun Aur Nasliyat e Hindukush (2)
پشتون اور نسلیات ہندوکش (2)
پشتون کی اصل نسل کے بارے میں بہت سے عجیب و غریب نظریات پائے جاتے ہیں۔ برق صاحب نے تقریباً ان تمام نظریات کا مدلل انداز میں تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ ان میں سے ایک نظریہ، بنی اسرائیلی نظریہ بھی ہے۔ یہ نظریہ کچھ یوں تراشا گیا ہے کہ مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں ایک مرتبہ دربار میں ایک ایرانی سفیر آیا اور مغلوں کو خوش کرنے کیلئے پشتونوں کی اصل نسل پر کیچڑ اچھالتے ہوئے ایک قصہ سنایا۔
دراصل ایرانی اور مغل آپس میں حلیف جبکہ پشتونوں کے حریف تھے۔ ایرانی سفیر نے بتایا کہ قدیم ایران کے بادشاہ ضحاک نے کوہ قاف سے پرے پریوں کے دیس سے لڑکیاں لانے کیلئے اپنے سپہ سالار نریمان کو کچھ لشکر کے ساتھ بھیجا، لیکن واپسی پر ایک دیو حملہ اور ہوا اور ان سے لڑکیاں چھین لی، بعد میں نریمان اور اس کے لشکر نے دیو پر حملہ کرکے لڑکیاں پھر واپس لے کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کیں۔
بادشاہ کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ لڑکیاں دیو استعمال کر چکا ہے تو وہ پھر سے ان لڑکیوں کو اسی پہاڑ میں رہا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہاں آ کر ایرانی سفیر بتاتا ہے کہ ان لڑکیوں سے جو بچے پیدا ہوئے، وہ بعد میں پشتون نسل بنی، اس وقت دربار میں کچھ پشتون سردار موجود تھے۔ جن میں خان جہان لودھی، ہیبت خان کاکڑ اور محبت خان یوسفزئی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
ان سرداروں نے صلاح و مشورہ کے بعد اس انتہائی تضحیک آمیز کہانی سے بچنے کیلئے ایک ملا، "نعمت اللہ ہروی" کو پشتونوں کا شجرہ معلوم کرنے کیلئے افغانستان بھیجا، یہ صاحب وہاں سے یہ شجرہ کھود کر لے آیا کہ پشتون بنی اسرائیل ہیں۔ اس شجرے کو قیس عبدالرشید سے لے کر آدم تک پہنچایا گیا ہے۔ یہ کہا گیا کہ قیس عبدالرشید نامی ایک شخص جو نبی کریم ص کے ہمعصر تھے۔
ملک عرب چلے گئے اور خالد بن ولید کی بیٹی سے شادی کرکے لوٹ آئے۔ یہ موجودہ پشتون اسی قیس عبدالرشید کی اولاد ہیں۔ رحمت اللہ ہروی کی "تاریخ خان جہانی عرف محزن افغانی" میں یہ نظریہ یوں بیان کیا گیا ہے، ملک طالوت اسرائیل کا بادشاہ تھا۔ جس کی دو بیویاں، برخیا اور ارمیا تھیں۔ اس کی موت کے بعد دونوں کی اولادیں ہوئیں، برخیا کا بیٹا آصف کے نام سے معروف ہوا، جبکہ ارمیا کے بیٹے کا نام افغنہ رکھا گیا۔
پھر افغنہ کی اولاد اتنی بڑھ گئی کہ گنتی سے نکل گئی اور بعد میں یہ نسل افغان کہلائی۔ بنی اسرائیلی نظریہ والے یہاں ایک اور شاخ یا پیوند بھی لگاتے ہیں۔ جو دراصل قیس عبدالرشید کا افسانہ ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ پشتون بنی اسرائیل تو تھے ہی جو یہاں موجودہ پختونخوا اور افغانستان میں رہتے تھے۔ لیکن جب اسلام کا ظہور ہوا تو خالد بن ولید نے یہاں کے پشتونوں یا بنی اسرائیل کو پیغام بھیجا کہ تم یہاں آ جاؤ۔
یہ لوگ قیس نامی شخص کی سربراہی میں وہاں گئے۔ کوئی اس جرگے کی تعداد چالیس بتاتا ہے اور کوئی ستر۔ بہرحال یہ وہاں جا کر نبی کریم ص کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پھر چند لڑائیوں میں حصہ لے کر حضور نے ان کو "بطان" کا خطاب دیا، جو کشتی کے سینے کو کہتے ہیں اور قیس (عبرانی نام) بدل کر عبدالرشید رکھ دیا۔ پھر خالد بن ولید نے قیس عبدالرشید سے اپنی بیٹی بیاہ دی۔ جس سے تین بیٹے (سٹربن، عزغشت، اور بیٹ) پیدا ہوئے اور یہ بعد میں تمام پشتون قبائل کے اجداد بنے۔
نوٹ: بنی اسرائیلی نظریہ والے یہ بھی کہتے ہیں کہ پشتون بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل میں سے ہیں۔ ان تمام نظریات کا تنقیدی جائزہ اگلے قسط میں لیا جائے گا۔