Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salamat Ullah Khan
  4. Kahani Ki Kahani

Kahani Ki Kahani

کہانی کی کہانی

ہم بچپن میں اپنے بڑوں سے کہانیاں سننا پسند کرتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ دیو اور جنات کی کہانیوں سے ہوتے ہوئے بادشاہوں اور ملکاؤں کی کہانیاں، الف لیلہ، سات بہنیں، خاتم کے سات سوالوں اور علی بابا چالیس چور وغیرہ کی کہانیوں کے بارے میں کم از کم سنا ضرور ہے۔ کہانیاں ہماری تہذیب و ثقافت میں پیوست ہوتی ہیں۔ مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک دنیا کے ہر گوشے میں اور انسانی تہذیب کی ترقی کے ہر دور میں قصہ گوئی موجود رہی ہے۔

ہر کہانی سے ہمیں ایک سبق ملتا ہے۔ اس کے علاوہ الفاظ کے ذریعہ اس دور کا خاکہ کھینچا جاتا ہے تاکہ اس دور کے رسم و رواج، عادات و اطوار، تاریخ و ثقافت اور ديگر چیزوں کے بارے میں معلومات ملے، کہانیاں صرف کتابوں کی زینت نہیں، بلکہ ان کی انسانی زندگی میں بھی قدر و قیمت رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ ارسطو نے بھی سکندر اعظم کو ایک کہانی سنائی تھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ سکندر کے عظیم بننے اور کامیابی حاصل کرنے میں ان کے استاد ارسطو کی تعلیم کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔

ارسطو کی یہ کہانی حقیقت اور فسانے کے امتزاج سے بنی تھی۔ یہ Troy کی جنگ کی کہانی تھی۔ جس کا یونانی شاعر ہومر نے اپنی رزمیہ Iliad میں مفصل ذکر کیا ہے۔ سکندر نے اس سے یونانی بادشاہوں کی یک جہتی اور جنگی حکمت عملی سیکھی اور پھر دنیا پر فتح حاصل کی، ادب یا قصے کہانیوں کی دنیا میں انقلاب لانے کا سہرا عرب ممالک کو جاتا ہے۔ جنھوں نے چین سے کاغذ بنانے کی تکنیک سیکھ کر اسے ایک بہت کامیاب کاروبار کے طور پر آگے بڑھایا۔

کاغذ کی ایجاد سے پہلے کہانیاں نسل در نسل زبانی ادب کے روپ میں پہنچ رہی تھی۔ جب انسان نے لکھنا شروع کیا تو اس نے اپنے خیالات درختوں کی چھالوں اور پتوں پر درج کرنے شروع کیے، پتھروں پر کندہ کیے۔ کاغذ کی دریافت کے بعد سارا منظر ہی بدل گيا اور عرب میں الف لیلہ کی کہانیاں اسی طرح یکجا کی گئيں۔ کاغذ کی ایجاد نے ادب کو تحفظ فراہم کیا اور اسے یکجا کرنے کا کام کیا۔ پرنٹنگ کی ایجاد اسے گھر گھر پہنچایا۔

جوں جوں ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی، لوگوں تک ادب تک رسائی بھی بڑھ گئی۔ اس میں تعلیم کی بڑھتی ہوئی سطح نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ زیادہ قارئین پیدا ہونے لگے تو زیادہ کہانیاں لکھنے والے بھی آنے لگے۔ آج مختلف قسم کی کہانیاں لکھنے اور پڑھنے والے موجود ہیں۔ آج ہم انٹرنیٹ دور میں رہ رہے ہیں۔ ایک کلک پر دنیا بھر کا ادب ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ خواہ کوئی ہاتھ میں کتاب لیے پڑھتا نظر نہ آتا ہو، لیکن سب کے پاس ایسے گیجٹس ہیں۔ جس کے ذریعے جب چاہے پڑھ سن سکتا ہے۔

لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈیجیٹل ورلڈ میں ہم ادب لکھنے کا ایک نئی آغاز کر رہے ہیں۔ زمانہ خواہ کتنا ہی کیوں نہ بدل گیا ہو، راجہ رانی تبدیل ہو گئے ہوں، لیکن قصے کہانی کا دور جاری ہے اور کہانی کی حکومت ہمارے دلوں پر قائم ہے۔

About Salamat Ullah Khan

Salamat Ullah Khan is a graduate of Political Science & IR from Quaid e Azam University, Islamabad. He writes on Politics, History and Philosophy.

Check Also

Qasoor To Hamara Hai?

By Javed Ayaz Khan