Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salamat Ullah Khan
  4. Henry Kissinger, Kahani Ka Doosra Rukh

Henry Kissinger, Kahani Ka Doosra Rukh

ہنری کسنجر، کہانی کا دوسرا رُخ

یہ کہانی 27 مئی 1923 کو جرمنی کی ریاست Bavaria سے شروع ہوتی ہے جب ایک متوسط یہودی گھرانے میں ہینز الفریڈ کسنجر نامی ایک بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ ہنری کا گھرانہ Nazis کے جبر سے بچنے کیلئے جرمنی سے امریکہ منتقل ہوتا ہے۔ ہنری کسنجر، جو بعد میں پوری دنیا سے مخاطب ہوتے رہے، فطری طور پر ایک شرمیلا بچہ تھا۔ وہ رات کے وقت سکول جاتا تھا اور دن کے وقت شیونگ برش بنانے والی فیکٹری میں کام کرتا تھا۔

ہنری اکاؤنٹنسی میں جانا چاہتے تھے لیکن پھر انہوں نے آرمی جوائن کرلی۔ 1945 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ بعد میں پروفیسر بنے اور عملی سیاست کا حصہ بھی بنے۔ دو امریکی صدور کے ساتھ رہ کر یونائٹڈ اسٹیٹس سیکرٹری آف سٹیٹ اور پھر نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بن گئے۔ بعد میں ہم دیکھیں گے کہ دنیا کا کوئی سفارت کار اس کے مرتبے کو نہیں چھو سکا کیونکہ کسنجر پچھلی نصف صدی کی عالمی سیاست اور اہم سفارتی مراحل میں اہم کردار رہے اور کسی نہ کسی حد تک اپنے اثرات بھی چھوڑے۔

دنیا دیکھتی ہے کہ چین کے ساتھ امریکا کے سفارتی تعلقات کا معاملہ ہو، سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ ہو، بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ ہو، ویت نام کی جنگ ہو، عرب اسرائیل جنگ ہو، ایران عراق یا ایران امریکا جنگیں ہوں، لاطینی امریکا کی جنگیں ہوں، ایسٹ تیمور کا مسئلہ ہو، کیوبا کا مسئلہ ہو یا پھر ویسٹ صحارا کا مسئلہ ہو، یہ پوری عالمی سیاست صرف ایک امریکی سفارتکار، ہنری کسنجر، کے گرد ہی گھومتی تھی جس کو وہ اپنی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔

آئیے اب کہانی کا دوسرا رُخ پلٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلاشبہ ہنری کسنجر امریکی خارجہ پالیسی کے رہنماؤں میں سب سے زیادہ عقلمند، دور اندیش اور سیاسی دنیا پر اثرات چھوڑنے والے سفارتکار تھے لیکن 29 نومبر 2023 کو جاتے جاتے اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر چلے گئے۔ ہمیں اُن کے اس ورثے کا سب سے زیادہ مطالعہ کرنا چاہئے کیونکہ ہنری کسنجر کی سفارتی زندگی اپنے اندر دونوں کامیابی اور تباہی کے اسباق لئے ہوئی ہے۔

کسنجر ذہنی طور پر بہت ہی شاطر انسان تھے۔ اُن کے پاس دنیا کا کونہ کونہ دیکھنے، تبدیلی اور اس کے اثرات سمجھنے اور پھر مختلف پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے کیلئے انتھک محنت کرنے کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ تاریخ سے گہری واقفیت، خاص طور پر 19ویں صدی کے اوائل میں پرنس میٹرنِک کے Concert of Europe سے ان کو Balance of Power جیسی حکمت عملی سے آشنائی اُن کو مختلف موقعوں پر کامیابی کی راہ دکھاتی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تاریخ کا مطالعہ بیوقوفوں کیلئے نہیں ہے۔

پچھلی نصف صدی کے دوران دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والے اہم واقعات میں کسنجر سرگرم رہے۔ بہت سے لوگوں کی محبت اور نفرت کے باوجود بھی وہ امریکی مفادات کا ناقابل یقین حد تک دفاع کرتے تھے۔ کسنجر نے ایک بار کہا تھا کہ ایک ایسا ملک جو اپنی خارجہ پالیسی میں اخلاقیات کا مطالبہ کرتا ہے، وہ کمال حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی سکیورٹی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ "طاقت سب سے شہوت انگیز غذا ہے"۔ سب سے اہم بات انہوں نے واشنگٹن میں سفارت کے فرائض انجام دینے والی سیدہ عابدہ حسین سے کہی تھی، "امریکہ دشمنوں سے زیادہ اپنے دوستوں کیلئے خطرناک ہے"۔

سیاست، تاریخ اور سفارت کاری بارے گہری جانکاری کے باوجود بھی کسنجر کچھ موقعوں پر تاریخ کے درست سمت میں کھڑے نظر نہیں آتے۔ انہوں نے ویتنام جنگ کے دوران کہا تھا، "میرے لئے یہ ناقابلِ یقین ہے کہ شمالی ویتنام جیسی چھوٹی طاقت کا کوئی توڑ نہیں ہے"۔ پھر اس کے بعد امریکہ جو شکست کھاتا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ شاید کسنجر نے نیشنلزم کی طاقت کو نظر انداز کر دیا تھا۔ انہوں نے اس بات کی تعریف نہیں کی کہ ویتنام اور کمبوڈیا صرف ڈومینوز نہیں تھے اور یہ کہ Viet Cong صرف ماسکو کے احکامات سے نہیں بلکہ اپنی قوم کیلئے خودمختاری اور سالمیت کی خواہش سے متحرک تھے۔

ہنری کسنجر نے 1971 کی جنگ کے دوران بنگلہ دیش میں بھی ایسی ہی غلطی کی تھی۔ انہوں نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور بنگلادیش کو Basket Case کہہ کر رد کر دیا تھا۔ لاکھوں لوگ مارے گئے مگر بنگلادیش کا قیام پھر بھی ہوا۔ یہ ناکامی کے ساتھ ساتھ ایک ناقابلِ معافی جرم بھی تھا۔ یہی سب کچھ ہمیں ایسٹ تیمور کے مسئلے میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن وہ امریکی مفادات کے حصول کے خاطر کوئی بھی قیمت چکانے کیلئے تیار تھے۔

ویتنام، کمبوڈیا، چلی، بنگلہ دیش، ایسٹ تیمور کے جنگوں میں ہنری کسنجر دنیا کو پاور پرزم سے دیکھتے ہوئے ایک باصلاحیت اور اعلیٰ سفارتکار کے طور پر نظر نہیں آتے بلکہ عام انسانی زندگیوں کی پروا نہ کرنے والے بوکھلاہٹ کا شکار جوشیلے امریکی کی طرح نظر آتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مشرقی ایشیا سے لے کر جنوبی امریکہ تک کوئی بھی انسانی عدالت ایک اعلیٰ سفارتکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جنگی مجرم بھی ٹہرائے گی۔

About Salamat Ullah Khan

Salamat Ullah Khan is a graduate of Political Science & IR from Quaid e Azam University, Islamabad. He writes on Politics, History and Philosophy.

Check Also

Shaitan Ke Agent

By Javed Chaudhry