Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Safdar Hussain Jafri
  4. Syeda e Konain Ka Youm e Shahadat (2)

Syeda e Konain Ka Youm e Shahadat (2)

سیدہِ کونینؑ کا یومِ شہادت (2)

مخدومہِ کونین، صدیقہِ دارین جنابِ سیدہ زہرا سلام اللہِ علیھا نے اس وقت خیال کیا کہ وہ باتیں جو ایک لمبے عرصے سے انہوں نے اپنے قلبِ مبارک میں چھپا رکھی ہیں۔ آج ضروری ہے کہ ان سے اپنے شوہر کو مطلع کر دیں تا کہ جس قدر ممکن ہو ان پر عمل کیا جائے، کیونکہ ان کی وصیت بہت زیادہ اہم اور تاریخی ہے۔ بغیر کسی کوتاہی و سستی کے انھیں عملی جامہ پہنایا جائے۔ جب آپ گھریلو اُمور سے فارغ ہوئیں تو اپنے بستر پر تشریف لائیں اور حضرت امیرؑ سے فرمایا: اے میرے چچا کے عظیم فرزند! میں آج اس دنیا سے کوچ کرنے والی ہوں۔ لمحہ بہ لمحہ اپنی منزل کے قریب ہو رہی ہوں اور اپنے والدِ گرامی سے لاحق ہونے والی ہوں۔ اب میں جو کچھ کہوں وہ میری وصیت ہوگی اُس کی تعمیل آپ کے ذمہ ہے۔

حضرت امیر المومنینؑ نے فرمایا: خداوند تعالیٰ آپ کو سلامتی عطا فرمائے۔ جو کچھ فرمانا چاہتی ہیں فرمائیے۔ حضرتِ امیرؑ، بتولِ معظمہؑ کے سرہانے بیٹھ گئے اور اُس وقت جو لوگ حجرہ میں تھے اُن سب کو باہر جانے کا کہہ دیا تا کہ اُن کی زوجہِ محترمہ جو کچھ کہنا چاہتی ہیں وہ بیان کر دیں۔

حضرت فاطمہ زہراؑ نے فرمایا: يَا بُنَ الُعَمِّ! مَا عَهَدُ تَنِي كَاذِبَةٌ وَلَا خَائِنَةٌ وَلَا أُخَالِقَكَ مُنُذُ حاشَتنِي

اے میرے چچا کے گراں قدر فرزند! آپ نے مجھے اپنی تمام زندگی میں راست گو، پسندیدہ کردار اور امانت دار پایا ہے۔ آپ نے اس پسندیدہ روش سے مجھے کبھی دور نہیں دیکھا ہے۔

کیا ایسی بات ہے؟

حضرت امیرؑ نے فرمایا: خدا کی پناہ! مجھے خدا کی قسم! آپ سید الانبیاء کی دخترِ فرزانہ ہیں۔ بھلائیوں اور نیکیوں میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ تقوی و اخلاص میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ سب سے زیادہ محترم و مکرم ہیں۔ خدا خوفی میں اعلیٰ و ارفع مقام کی حامل ہیں۔ فاطمہ جان! آپ کی جدائی مجھ پر گراں ہے لیکن یہ قانونِ آفرینش ہے اس سے گریز نہیں ہے۔

خدا کی قسم! آپ کی رحلت و شہادت میرے لیے رسول اللہ ﷺ کی جاں سوز رحلت کی تجدید کر دے گی۔ آپ کا فقدان و فراق رسول اللہ کے ہجر و فراق سے گراں تر ہے۔ پس ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہماری بازگشت اسی کی طرف ہے۔ یہ وہ مصیبت ہے جو بہت زیادہ دردناک اور الم ناک ہے۔ یہ اتنی عظیم مصیبت ہے کہ اس سے بڑی کوئی اور مصیبت نہیں ہوگی۔

اس کے بعد کائنات کی ان دو عظیم ہستیوں نے رونا شروع کیا۔ اس دوران حضرتِ امیر نے سیدہ نساء العالمین کا مبارک سر اپنے سینے سے لگالیا اور فرمایا: آپ وصیت فرمائیں، آپ مجھے ایفاءِ وصیت میں ہر صورت وفادار پائیں گی۔ آپ کا جو حکم ہوگا میں اس کی تعمیل کروں گا اور آپ کے امر کو اپنے اُمور پر ترجیح دوں گا۔

سیدہِ عالمؑ نے فرمایا: خداوند تعالی آپ کو میری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ اے میرے چچا کے بیٹے! میری پہلی وصیت یہ ہے کہ آپ میرے بعد امامہ سے عقد کرنا، وہ میری اولاد پر میری ہی طرح مہربان ہیں کیونکہ مردوں کو ہر صورت میں عورتوں کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا: جن لوگوں نے مجھ پر ظلم کیے ہیں انھیں میرے جنازے پر نہ لانا وہ میرے اور اللہ کے رسول کے دشمن ہیں۔ جب لوگ رات کو سو جائیں تو مجھے اُس وقت دفن کرنا۔ (روضۃ الواعظین / بحار الانوار: ج 43)

میری دوسری وصیت یہ ہے کہ جب میری روح پرواز کر جائے، مجھے کپڑے کے نیچے یا میرے پیراہن میں مجھے غسل دینا کیونکہ میرا بدن پاک و پاکیزہ ہے۔ مجھے رسول اکرم ﷺ کے باقی ماندہ حنوط سے حنوط کرنا۔ میری نمازِ جنازہ میں صرف ان لوگوں کو شریک کرنا جو ہمارے اہل بیت سے بہت زیادہ قربت رکھتے ہیں۔ مجھے رات کے وقت دفن کرنا نہ دن کو خفیہ دفن کرنا، ظاہراً دفن نہ کرنا اور میری قبر کو چھپا دینا۔ جن لوگوں نے مجھ پر ظلم کیے ہیں وہ میرے جنازے میں شرکت نہ کریں۔

اے میرے چچا کے فرزند! میں خوب جانتی ہوں میرے بعد آپ کو ہر صورت کسی عورت سے عقد کرنا ہوگا۔ اگر آپ کسی عورت سے عقد کر لیں تو ایک دن اور رات اُس کے ساتھ رہنا اور دوسرا دن اور رات میری اولاد کے ساتھ گزارنا۔ پھر آپ نے یہ اشعار پڑھے:

"ہاں اے بہترین ہادی و راہنما! اگر تو رونا چاہتا ہے تو مجھ پر رو اور اپنی آنکھوں سے اشکوں کے سیلاب جاری کر کیونکہ یہ روز فراق و فقدان کا روز ہے۔ اے ہم دمِ گراں قدرِ بتول! میں آپ کو اپنی اولاد کے بارے میں وصیت کرتی ہوں کیونکہ وہ صرف آپ سے ہی مانوس ہیں۔ اگر مجھ پر گریہ کرنا چاہو تو میرے ان یتیموں پر رونا اور میرے اس شہزادے کو کبھی نہ بھولنا جو دشمنوں کے ہاتھوں نینوا میں قتل کر دیا جائے گا۔

حضرت امام محمد باقرؑ سے روایت ہے جب بتولِ معظمہؑ نے وصیت کرنا چاہی تو حضرتِ امیرؑ سے فرمایا: اے ابوالحسن! رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور مجھے فرمایا تھا کہ اُن کے اہل بیت میں سے سب سے پہلے میں ان سے لاحق ہونے والی ہوں اور ایسا ہو کر رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر صبر کرنا اور اس کی قضا پر راضی رہنا۔ (بیت الاحزان، ﷺ 142)

حضرت امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ جب خاتونِ جنتؑ کی رحلت کا وقت قریب آیا تو آپ رونے لگیں۔ حضرت امیرؑ نے پوچھا: اے دخترِ پیغمبرؑ! آپ کیوں رو رہی ہیں؟

سیدہِ عالم نے فرمایا: میں اس لیے رو رہی ہوں کہ میرے بعد آپ کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی اطاعت کے مقابلے میں سب ہیچ ہے۔ (بحار الانوار، ج 43)

ایک اور روایت میں ہے کہ خاتونِ بہشت نے حضرت امام علیؑ سے فرمایا:

اے ابوالحسن! مجھے آپ سے ایک کام ہے۔

آپ نے فرمایا: فرمائیے۔

سیدہ عالم نے فرمایا: آپ کو اللہ کی قسم! مجھے پر فلاں فلاں نماز نہ پڑھیں۔

(بیت الاحزان، ﷺ 142)

جی ہاں! سیدہ عالم کی یہ وہ بعض وصیتیں ہیں جن سے واضح ہے کہ آپ کو اُس دور کے ماحول و معاشرہ سے تکالیف پہنچی تھیں۔ یہ ان تکالیف کا اظہار ہے۔

آپ چاہتی تھی کہ اس طرح وہ اپنا نام ان لوگوں میں لکھوا دیں کہ جن پر مظالم ڈھائے گئے اور اُن کے حقوق کو غصب کیا گیا تا کہ ان کا نام مظلومیت و حرمان کی علامت بن جائے۔ آپ نے وصیت فرمائی کہ کچھ لوگ ان کے جنازے میں شرکت نہ کریں۔ آپ نے اس طریقے سے تاریخ میں یہ ثبت کرا دیا کہ وہ مظلومہ ہیں۔

آپ نے فرمایا: میرے جنازے میں وہ لوگ شرکت کریں کہ جن کے ضمائر انحرافی نہ ہوں۔

سیدہِ عالمؑ نے اپنے شوہر نامدار کو کچھ دوسری وصیتیں بھی کی تھیں۔ آپ نے فرمایا تھا

گا ہے بہ گاہے میری قبر پر آنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔ پھر آپ نے حضرت اسماء بنتِ عمیس سے فرمایا کہ وہ حنوط لائیں جو حضرتِ جبرئیل جنت سے لائے تھے۔ وہ حنوط فلاں جگہ رکھا ہوا ہے وہ لاکر میرے سرہانے رکھ دیجیے۔ وہ حنوط سدر اور کافور تھا۔

(بحار الانوار)

جب آپ کے فرمان کے مطابق آپ کا بستر حجرے کے وسط میں لگا دیا گیا تھا۔ اس دوران آپ نے اپنے بچوں کے لیے کھانا تیار کیا اور اُمورِ خانہ داری کی تعمیل کی۔ ان تمام ضروری امور سے فراغت کے بعد آپ نے قبلہ رخ ہو کر اپنے بستر پر آرام پذیر ہوئیں۔ اس دوران آپ نے اپنے دونوں نازنین ہاتھوں کو اپنے رخساروں کے نیچے رکھ دیا اور اذکار کی دنیا میں محو ہوگئیں۔

ایک روایت ہے کہ آپ نے اپنی دونوں شہزادیوں حضرت زینبؑ اور حضرت ام کلثومؑ کو بنو ہاشم کی کسی خاتون کے ہاں بھیج دیا تھا تا کہ وہ اپنی مہربان و شفیق ماں کی روح کی پرواز کو نہ دیکھیں کیونکہ وہ اپنی والدہ کی رحلت کے صدمہ کو برداشت نہ کر سکیں گی۔

بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام علیؑ اور حضرات حسنین شریفین علیہم السلام گھر پر تشریف فرما نہ تھے شاید ان کا گھر سے باہر رہنا کسی امر کی اتباع ہو۔ بہر حال خاتونِ جنت کی زندگی کی آخری ساعات میں امام اور ان کے دونوں شہزادے اُن کے پاس موجود نہ تھے۔ حضرت اسماء بنت عمیس اور حضرت فضہ موجود تھیں۔

بضعہِ رسول کی زندگی کا یہ آخری لمحہ ہے۔ آپ کی ملکوتی روح کے پرواز کے لمحات بالکل قریب ہیں۔ اچانک آپ کے سامنے مادی حجابات اٹھا لیے گئے۔ سیدہ نساءِالعالمینؑ نے اپنی متفکرانہ نگاہوں کو اپنے اطراف میں دوڑانا شروع کر دیا۔ آخر آپ کی نگاہیں سامنے کو اٹھیں اور فرمایا:

السَّلَامُ عَلَى جِبُرَائِيلَ!

السَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ!

اللَّهُمَّ مَعَ رَسُولِكَ!

اللَّهُمَّ فِي رِضُوَانِكَ وَجَوَارِكَ وَدَارِ السَّلَامِ

فرشتہِ وحی حضرت جبرئیل پر سلام! اللہ کے رسول پر سلام!

اے میرے اللہ مجھے اپنے رسول کی ہمراہی عطا فرما!

اے میرے اللہ مجھ پر اپنی رحمت نازل فرما، اپنے جوار سلامتی و امنیت میں جگہ عطا فرما اس دوران آپ نے حضرت اسماء اور فضہ اور دوسرے حاضرین سے فرمایا:

أَتَرَوُنَ مَا أَرَى؟

"کیا جو کچھ میں دیکھ رہی ہوں آپ دیکھ رہے ہیں؟"

انھوں نے آپ سے پوچھا: آپ کیا دیکھ رہی ہیں؟

آپ نے فرمایا: "یہ گروہ در گروہ آسمانی ملائکہ ہیں، انہی کے ہمراہ حضرت جبرئیل اور میرے والد گرامی رسول اللہ ہیں۔ وہ مجھ سے فرما رہے ہیں کہ اے میری دختر! جلد میرے پاس آجائیے۔ یہاں آپ کے لیے وہ نعمات و مقامات ہیں جو دنیا کی ہر نعمت سے بہتر اور پسندیدہ تر ہیں"۔

پھر آپ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو پھیلا دیا۔ اس دوران آپ کی ملکوتی روح عالمِ ملکوت کی طرف پرواز کر گئی!

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan