Syeda e Konain Ka Youm e Shahadat (1)
سیدہِ کونینؑ کا یومِ شہادت (1)
مخدومہِ عالمیان، صدیقہِ دارین، سیدہِ کونیں، تسکینِ دلِ سرورِ کونیں، مادرِ حسنین کریمین حضرت بتولِ معظمہ سلام اللہِ علیھا کی زندگی کا آخری دن تھا۔ آپ اپنے سادہ بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔ کمزوری اور درد و رنج نے آپ کے مبارک جسم کو گھیر رکھا تھا۔ مصائب و آلام نے آپ کے نازنین بدن کو گھلا دیا تھا۔ اس دوران آپ کو نیند آگئی۔ آپ نے عالمِ رویا میں اپنے والد ماجد رسول اللہ ﷺ کو دیکھا۔ میں نہیں جانتا خدا ہی خوب جانتا ہے کہ رحلتِ رسول اللہ کے بعد آپ نے اپنے والدِ گرامی کو پہلی دفعہ دیکھا یا اس سے قبل آپ انہیں خواب میں دیکھ چکی تھیں۔
آپ نے اپنے والدِ گرامی کو دُرِ اَبیض کے خوبصورت ترین اور بلند ترین محل میں دیکھا۔ جب رسول اللہ ﷺ کی آپ پر نگاہ پڑی تو آپ سے فرمایا
عَلُمِي إِلَيَّ يَا بُنَيَّةً فَإِنِّي إِلَيُكِ مُشُتَاقُ
"اے میری دخترِ محبوبہ! فاطمہ جان! میری طرف جلدی آئیے کہ میں آپ کے دیدار کا مشتاق ہوں"۔
فَقَالَتُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَشَدُّ شَوُقًا مِنُكِ إِلَى لِقَائِكَ
"حضرت فاطمہ زہراؑ نے جواب دیا: بابا جان! خدا کی قسم کہ میں آپ کے دیدار کے لیے آپ سے زیادہ بے تاب ہوں"۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أَنُتِ اللَّيُلَةَ عِنُدِي
"فاطمہ جان مبارک ہو آج رات آپ میرے پاس ہوں گی"۔ (بحار الانوار: ج 43، صفحہ 179، عوالم: ج 11 صفحہ 391)
جونہی آپ خواب سے بیدار ہوئیں تو آپ نے جہانِ آخرت کی تیاری شروع کر دی کیونکہ آپ اپنے والد گرامی سے خواب میں مل چکی تھیں اور آپ کو رسول اکرم کا یہ فرمان بھی یاد تھا:
مَنُ رَانِي فَقَدُ رَأَنِي
"جس کسی نے مجھے خواب میں دیکھا اُس نے مجھے ہی دیکھا ہے"۔
سیدہ عالم اپنے خواب کی تعبیر جانتی تھیں کہ اس خبر کی صداقت میں کوئی ریب و تردّد نہیں ہے۔ آپ نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ اس خواب سے آپ کے نازنین جسم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ آپ نے ان آخری لمحات کو اپنی زندگی کے لیے مشعل قرار دیا۔ ضروری تدابیر اختیار کرنے کے لیے آپ اُٹھیں اور آپ نے ان آخری ساعتوں کو اپنی زندگی کے لیے غنیمت شمار کیا۔ ان حسّاس لمحات میں خداوند تعالی ہی اُن کے قلبی اشتیاق اور فکری جولان کا اندازہ کر سکتا تھا۔ وہ اپنی موت سے شاداں و فرحاں تھیں کہ یہی موت ہی انھیں اس دنیا سے جہانِ آخرت تک کی طرف منتقل کر سکتی ہے۔ اس طرح ان کا نازنین جسم اس دنیا کے غم و آلام سے آزاد ہو سکتا ہے اور وہ اپنے والدِ مہربان رسولِ اعظم کی بارگاہِ صدق و صفا میں ملحق ہو جائیں گی اور اس طرح رسول اللہ کی بشارت کہ آپ نے فرمایا تھا: "اے فاطمہؑ میرے خاندان میں سب سے پہلے مجھ سے ملحق ہونے والی آپ ہیں" منظرِ عام پر آجائے گی۔
لیکن ایک دوسرے پہلو سے آپ حیران و پریشان تھیں کہ وہ عنقریب اپنے شوہرِ نامدار کو بے رحم و بے داد ماحول و معاشرے میں تن تنہا بے چارگی کی صورت میں الوداع کریں گی۔ اللہ تعالیٰ کے سوا جس کا نہ کوئی ناصر ہے اور نہ معین۔ ان سخت مشکلات میں سیدہِ عالم اپنے شوہر نامدار کی مدافع اور ناصرہ تھیں۔ جب وہ اس دنیا سے چلی جائیں گی تو اس وقت اُن کی نیابت کون کرے گا؟
ان واپسیں لمحات میں بضعۃِ رسول بہت حیران و پریشان تھیں کیونکہ اُن کے سامنے ہجر و فراق کے درد ناک مناظر تھے اس لیے آپ کے مبارک قلب کی دھڑکن تیز تر ہو جاتی تھی۔ آپ کنٹرول کرنے کی کاوش کرتی تھیں۔ آپ کے سامنے وہ معصوم بچے تھے کہ جن کے بازو ابھی بہت کمزور تھے۔ اُن کی صغر سنی تھی۔ چند لمحات بعد آپ اُنھیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ جانے والی تھیں۔
قارئین سیدہِ دارینؑ کے اسماء میں آپ کا ایک اسم "الحامیہ" بھی ہے۔ اس اسم کا معنی و مفہوم ہے کہ آپ اپنے بچوں سے عشق و علاقہ کے لحاظ سے کائنات کی ہر ماں پر سبقت رکھتی تھیں۔ آپ اپنے جگر گوشوں کو بے رحم و خیانت پیشہ اس دھرتی میں چھوڑ جانے والی تھیں جو نہ کسی کبیر پر رحم کرنے والی ہے اور نہ کسی صغیر پر اور نہ کسی بدکار پر اور نہ کسی نیکوکار پر رحم کرنے والی ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے اپنے بابا جان سید الانبیاء ﷺ سے کئی بار سنا تھا کہ آلِ رسول کو مستضعف بنا دیا جائے گا اور وہ حق و حقیقت کے دفاع میں مصائب و آلام سے دوچار ہوں گے۔ رحلتِ سرتاج انبیاء کے بعد آپ نے سب کچھ دیکھ لیا تھا۔ خدا ہی خوب جانتا ہے کہ اس دخترِ بہشت کے قلبِ شکستہ پر ان افکار و اندیشوں کی یلغار کیسی تھی؟
جی ہاں! وہ خود بھی ان باتوں کو سب سے بہتر جانتی تھیں۔ اُن کے لیے اب محزون و مغموم رہنا کوئی نفع دینے والی چیز نہیں تھی۔ تلخ و دردناک حقائق کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ آپ نے اپنے دل میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے سامنے سرِ تسلیم خم ہے۔ اس لیے آپ کے لیے ضروری تھا کہ اس کوتاہ فرصت کو غنیمت جانیں کیونکہ یہ بھی بہت جلد آسمانی زندگی سے اس طرح گزر جانے والی تھی کہ جس طرح آسمان سے بادل گزر جاتا ہے۔ آپ ابھی دردناک تصورات کے بحرِ غم میں بستر سے اٹھیں لیکن جسم میں طاقت و قوت نہ تھی۔ کبھی چلتی تھیں اور کبھی بیٹھ جاتی تھیں۔ اسی افتاں و خیزاں صورت میں دیوار کا سہارا لیتے ہوئے اُس مقام پر آئیں جہاں گھر کے لیے پانی کا ذخیرہ تھا۔ آپ نے اپنے کانپتے اور لرزتے ہاتھوں کے ساتھ اپنے بچوں کے کپڑے دھونے شروع کیے۔ جب کپڑے دھل گئے تو آپ نے اپنے بچوں کو اپنے پاس بلایا اور انھیں آبِ ذلال اور خاص قسم کی مٹی سے غسل دینا شروع کیا۔
اے قاریِ عزیز کچھ لمحات کے لیے ہمارے ساتھ توقف کیجیے۔ خاتونِ جنت، بضعةِ رسول، بتولِ عزرا، یادگارِ خاندانِ وحی کی رحلت کا وقت قریب ہے۔ مل کر ان پر گریہ کر لیتے ہیں۔ دیکھیے اُن کے مبارک ہاتھ بچوں کے سر پر ہیں اور انھوں نے اپنے بچوں کے بالوں میں اپنی انگلیاں ڈال رکھی ہیں گویا کہ آپ ان سے وداع کر رہی ہیں۔
کوئی شخص کیا جانتا ہے؟ وہ انہی لمحات میں اپنی آنکھوں سے آنسو بہا رہی ہیں غم و آلام کے فشار سے اُن کی آنکھیں ساون کے بادل کی طرح اُن کے افسردہ ملکوتی رخساروں پر برس رہی ہیں تاکہ کسی حد تک افسردگی کے آثار دھل جائیں۔
اس دوران حضرتِ امیرؑ اپنے گھر میں داخل ہوئے تو انھوں نے دیکھا کہ اُن کی زوجہِ عزیزہ اپنے بستر کو چھوڑ کر اُمورِ خانہ داری میں مصروف ہیں۔ اس دکھ بھرے منظر کو دیکھ کر امامِ علیؑ کے قلب پر رقت طاری ہوگئی کہ بضعةِ رسول اپنے بستر کو چھوڑ کر ان کاموں میں مصروف ہیں جو وہ اپنی صحت و تندرستی کے زمانے میں کرتی تھیں۔ سیدہ زہراؑ کے اس ناتوانی و مرض کی حالت میں تھکا دینے والے کام آپ کو عجیب لگے۔ آپ نے اُن سے پوچھ لیا کہ آپ صاحبِ فراش تھیں، آپ نے اس طرح کی زحمت کیوں فرمائی؟
بضعۃِ رسول نے بھر پور وضاحت کے ساتھ جواب دیا: جی ہاں! یہ دن میری زندگی کا آخری دن ہے۔ میں نے اپنے بچوں کے کپڑے دھوئے ہیں اور انھیں اس لیے نہلایا ہے کہ عنقریب ان کی ماں اس دنیا سے چل بسے گی اور وہ بغیر ماں کے رہ جائیں گے۔
حضرت امیر نے آپ سے پوچھا: آپ ایسی بات کیوں کر رہی ہیں۔ آپ کو اپنی رحلت کا کیسے پتا چلا ہے؟ بتولِ معظمہؑ نے اپنا خواب بیان کیا۔ جی ہاں! آپ نے اپنی رحلت کی اس خبر سے آگاہ کیا جو نا قابل تردید تھی۔

