Masail e Mushkila Ka Hal Aur Hazrat Ali Ki Hazir Jawabi (9)
مسائلِ مشکلہ کا حل اور حضرت علیؑ کی حاضر جوابی (9)
کتاب خرائج میں شیخ جلیل قطب راوندی نے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں عرب کے ایک قبیلہ میں دس بھائی تھے جن کی ایک بہن تھی۔ ایک دن ان بھائیوں نے اپنی اکلوتی بہن سے کہا: ہم تجھے زندگی کی ہر سہولت مہیّا کر سکتے ہیں۔ تجھے دنیا کی ہر نعمت لا کر دے سکتے ہیں۔ ہم ہر لمحے تیری ہر ضرورت پوری کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تُو کبھی شادی کرنے کی خواہش نہ کرنا۔ کیونکہ یہ ہمیں قبول نہیں کہ تُو کسی کی بیوی بنے، یہ ہماری غیرت کے خلاف ہے۔ لڑکی نے اپنے بھائیوں کی خواہش کا احترام کیا اور ان کی خواہش پہ اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ ایسا کبھی نہیں کرے گی اور اپنے بھائیوں کی رضا اور مرضی کے مطابق ساری عمر کنواری رہے گی اور یوں ہی زندگی گزار دے گی، کبھی شادی کا نام تک نہیں لے گی۔
بھائی اس بات سے بہت خوش ہوئے اور اپنی بہن کی ہر خواہش پوری کرتے۔ ان کے قبیلہ کے نزدیک ایک چشمہ تھا۔ تمام قبیلہ اس چشمے پر نہانے دھونے کے لیے جاتا۔ اتفاق سے وہ لڑکی ایک دن اس چشمے پر غسل کرنے گئی۔ غسل کے دوران ایک کیڑا اس کے رحم میں داخل ہوگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ کیڑا بڑھنے لگا، جس سے لڑکی کا پیٹ بھی بڑھنے لگا اور وہ مثلِ حاملہ معلوم ہونے لگی۔
بھائیوں نے جب بہن کی یہ حالت دیکھی تو وہ بدگمانی میں مبتلا ہوگئے۔ بلآخر بھائیوں نے ارادہ کیا کہ وہ اسے قتل کر دیں۔ حالانکہ جب لڑکی کی تفتیش کرائی گئی تو وہ باکرہ تھی۔ معاملہ مشکل ہوگیا۔ بھائی اپنی بدنامی کے خوف سے پریشان تھے۔ آخر کار یہ معاملہ دربارِ خلافت تک پہنچا اور وہاں سے مولا علی کے پاس پہنچایا گیا۔
مولا نے فرمایا: اس معاملے کا حل کوئی مشکل بات نہیں۔ تم لوگ ایک طشت کائی کا بھر کر لاؤ (ایک خوشبو دارگھاس) جب کائی سے بھرا طشت لایا گیا تو آپ نے فرمایا: لڑکی اس طشت پر بیٹھ جائے۔ جب لڑکی اس طشت پر بیٹھی اور کائی کی خوشبو اس کیڑے تک پہنچی تو اس نے فوراً اپنی جگہ چھوڑ دی اور باہر آگیا۔
اس روایت کو شرحِ قصیدہ ابی ذاس میں دارالمطالب سے نقل کیا گیا ہے اور تہذیب اور اصولِ کافی میں بھی کچھ تبدیلی کے ساتھ اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عمر ابن الخطاب کے زمانہِ خلافت میں ایک شخص کے ہاں ایک یتیم لڑکی پرورش پا رہی تھی۔ وہ شخص اکثرو بیشتر اپنے کاروباری معاملات کی وجہ سے شہر سے باہر رہتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ لڑکی بالغ و راشد ہوگئی۔ وہ بچی بہت خوب صورت اور بے مثال حسن و جمال کی مالک تھی۔ اِس شخص کی بیوی نے جب اس لڑکی کا حسن و جمال دیکھا تو دل میں خوف زدہ رہنے لگی کہ اگر اس کے شوہر نے اس لڑکی کے حسن و جمال کو دیکھ لیا تو وہ اس پر فریفتہ ہو جائے گا اور مجھ سے زیادہ اس کو چاہنے لگے گا۔ اِس خوف کی وجہ سے اس نے چند عورتوں سے مشورہ کیا اور اُسے نشہ آور دوا پلا کر ان عورتوں کے سامنے انگشت کے ساتھ اُس لڑکی کا پردہِ بکارت زائل کر دیا۔
جب شوہر سفر سے واپس آیا تو اِس نے اپنی بیوی سے اُس یتیم لڑکی کے بارے میں دریافت کیا تو اِس نے کہا: لڑکی نے اپنی عصمت کو برباد کر دیا ہے۔
شوہر نے لڑکی سے پوچھ گچھ کی تو لڑکی نے قسم کھائی کہ کسی نامحرم ہاتھ نے مجھے چھُوا تک نہیں۔
اِس عورت نے گواہی دینے والی عورتوں (اُس لڑکی کے زنا کی گواہ وہ عورتیں جو اِس عورت کے جرم میں شریک تھیں) کو پیش کر دیا۔ آخر کار شوہر یہ قضیّہ حضرت عمر کے پاس لے کر گیا۔ حضرت عمر نے تمام معاملہ سنا مگر کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے۔ اُس شخص نے درخواست کی کہ آپ ہمیں جنابِ علی مرتضیٰ کے پاس بھیج دیں۔
جب یہ شخص جنابِ امیرالمومنین کے پاس پہنچا اور اپنا قصّہ بیان کیا تو قاضیِ دینِ رسول ﷺ جنابِ امیر نے اُس کی بیوی سے فرمایا: کیا تُو اس لڑکی کے گواہ پر شواہد و برہان رکھتی ہے؟
اِس عورت نے بلا خوف وخطر کہا: جو بات میں کہ رہی ہوں اس کی گواہ میری ہمسایہ عورتیں بھی ہیں۔ یہ سن کر جنابِ امیر نے گواہ عورتوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔ جب گواہ عورتیں حاضر ہوئیں تو جنابِ امیر نے اپنی تلوار میان سے نکال کر اپنے سامنے رکھ دی اور ان میں سے ایک گواہ کو بلایا اور اس سے پوچھ گچھ کی تو اس نے وہی بات دہرائی جو اُس شخص کی بیوی نے بتائی تھی۔ اس گواہ کے بیان کے بعد دوسری عورت کو گواہی کے لیے بلایا گیا۔
جنابِ امیر دوزانُو ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اے عورت کیا تُو مجھے جانتی ہے کہ میں علی ابنِ ابی طالب ہوں اور یہ میری ذولفقار ہے! اس شخص کی بیوی (پہلی گواہ عورت) کی طرح سچ بات کہ دے، جس طرح اس نے اصل حقیقت بیان کر دی ہے اور میں نے اس کو امان دے دی ہے اور اگر تُو نے سچ کہا تو تجھے بھی امان ملے گی اور اگر تُو نے جھوٹ کہا تو میں اس ذوالفقار سے تیرے دو ٹکڑے کر دوں گا۔
اس عورت نے فوراً کہا: الاَمان الاَمان، مجھے اَمان دیجیے! میں آپ کو تمام واقعہ سچ بتاتی ہوں۔
جنابِ امیر نے فرمایا: تُو امان میں ہے، بتا سچ کیا ہے؟
اِس عورت نے کہا: لا واللہ اِس لڑکی نے کوئی زنا نہیں کیا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب اِس شخص کی بیوی نے اُس یتیم لڑکی کے حسن و جمال کو دیکھا تو اِس بات سے خوف زدہ ہوگئی کہ کہیں اس کا شوہر اُس پر فریفتہ نہ ہوجائے۔ اِس نے اُس کو نشہ آور دوا پلادی اور ہمیں اپمے گھر بلا کر ہمارے سامنے اُس کا پردہِ بکارت زائل کر دیا۔
اِس عورت سے اصل واقعہ سن کر جنابِ امیر نے بلند آواز سے اللہُ اکبر کہا اور فرمایا:
اَنا اوّلُ مَن فَوقَ الشہادۃ الّا دانیال الَّنبی۔
"پیغمبر دانیال کے بعد میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے اسی طرح گواہوں سے بیانات لے کر فیصلہ صادر کیا"۔
اس کے بعد جنابِ امیر نےحکم دیا کہ اس عورت کو حدّ قذف یعنی تہمت کی سزا دی جائے اور شوہر سے الگ کر دیا جائے۔
اس شخص نے جنابِ امیر کے حکم پر اس کو طلاق دے دی اور اس یتیم لڑکی سے شادی کر لی۔ اس عورت کے جرم میں شریک جھوٹی گواہی دینے والی عورتوں میں سے ہر ایک کے لیے "عقر" کی سزا مقرر کی گئی۔ (عقر کی سزا چار سو درہم جرمانہ ہے)۔ جنابِ امیر نے اس یتیم لڑکی کا حق مہر اپنے مال سے لیا اور مرد سے کوئی چیز نہ لی۔
یتیم لڑکی کے فیصلہ کے بعد حضرت عمر نے عرض کیا: یا اباالحسن! دانیال نبی کا کیا قصہ ہے ہمیں بھی بتائیے۔
جنابِ مولائے کائنات نے فرمایا: حضرت دانیال یتیم تھے۔ بنی اسرائیل کی ایک بوڑھی عورت نے آپ کو گود لے لیا تھا اور آپ اسی بڑھیا کے زیرِ تربیّت پروان چڑھے تھے۔ اُس زمانے میں جس بادشاہ کی حکومت تھی اُس نے عہدہِ قضاوت کے لیے دو قاضی مقرر کیے ہوئے تھے۔ بادشاہ کے دربار میں ایک مردِ صالح کا بھی آنا جانا تھا اور بادشاہ اسے پسند بھی کرتا تھا۔ یہ مردِ صالح اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا جو کہ بے حد حسین اور پارسا عورت تھی۔ بادشاہ کے دونوں قاضی اس مردِ صالح سے حسد کرتے تھے کہ بادشاہ اکثر امور میں اِس سے گفت و شنید کیا کرتا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے قاضیوں سے کہا کہ وہ کسی اہم کام کے لیے ایک ذمہ دار اور قابلِ اعتماد بندے کو بھیجنا چاہتا ہے۔ آپ لوگوں کی کیا رائے ہے کہ کس کو بھیجا جائے؟
دونوں قاضیوں نے مشورہ دیا کہ آپ مردِ صالح کو اس کام کے لیے چُن سکتے ہیں۔ بادشاہ کو ان کی رائے پسند آئی۔
جاری ہے۔۔

