Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Safdar Hussain Jafri
  4. Masail e Mushkila Ka Hal Aur Hazrat Ali Ki Hazir Jawabi (8)

Masail e Mushkila Ka Hal Aur Hazrat Ali Ki Hazir Jawabi (8)

مسائلِ مشکلہ کا حل اور حضرت علیؑ کی حاضر جوابی (8)

ابنِ شہر آشوب مناقب میں انس بن مالک سے یہ واقعہ نقل کیا ہے۔

ایک دفعہ میں حضرت عمر کے ساتھ منیٰ میں موجود تھا کہ اتنے میں ایک مرد جو اعرابی تھا ہمارے پاس آیا۔ اس کے ساتھ کچھ اُونٹ بھی تھے۔

حضرت عمر نے کہا: اِس اعرابی سے معلوم کرو کہ وہ اُونٹ فروخت کرنا چاہتا ہے؟

میں وہاں سے اُٹھ کر اس اعرابی کے پاس آیا اور اس سے پُوچھا کہ تُو یہ اُونٹ فروخت کرنا چاہتا ہے؟

اُس نے کہا: ہاں میں فروخت کے لیے لایا ہوں۔

میں نے حضرت عمر کو اُس کا ارادہ بتایا۔

حضرت عمر اُٹھے اور اُس اعرابی کے پاس چلے آئے۔ اُس سے چودہ اُونٹ خرید کیے اور کہا: اے انس! اِن اُونٹوں کو پکڑ کر ہمارے پاس لے آؤ۔

اعرابی نے کہا: اُونٹوں پر موجود پالان اور کمبل میرے سپرد کر دیں۔

حضرت عمر نے کہا: پالان اور کمبل بھی تو اُونٹوں کے ساتھ شامل ہیں۔

اعرابی نے کہا: نہیں حضرت ایسا نہیں ہے، میں نے صرف اُونٹ فروخت کیے ہیں۔

آخر کار اُنھوں نے مولا علی کو اپنا منصف بنایا۔

جنابِ امیر نے حضرت عمر سے فرمایا: آپ نے جب اُونٹ خریدے تھے تو پالان اور کمبل ساتھ شامل ہونے کی شرط رکھی تھی؟

حضرت عمر نے کہا: نہیں میں نے ان کی شرط نہیں رکھی تھی۔

جنابِ امیر نے فرمایا: اگر یہ مال کی خریداری کے معاہدہ میں نہیں تھے تو یہ پالان اور کمبل اس اعرابی کے ہیں۔

حضرت عمر نے انس کو حکم دیا کہ یہ پالان اور کمبل اعرابی کو واپس کر دے اور اُونٹوں کو برہنہ لے کر آئے۔

ایک بچے نے حضرت عمر سے اپنے مال کا مطالبہ کیا، اُس نے بیان کیا کہ میں مدینہ میں قیام رکھے ہوئے ہوں اور میرا باپ کوفہ میں وفات پاگیا ہے۔

حضرت عمر نے کہا: اے لڑکے کوفے میں مرنے والا شخص تیرا باپ کیسے ہوسکتا ہے، مزید یہ کہ لوگوں نے کہا کہ جس شخص کی وراثت کا دعویٰ یہ لڑکا کر رہا ہے وہ تو فلاں تھا اور کوفے میں فوت ہوا تھا اور اور اسے مدینے لا کے دفنایا گیا، لیکن وہ تو بہت بوڑھا تھا، یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بوڑھے شخص کی ضعیف العمری میں اولاد ہو۔

بچہ روتا ہوا مسجد سے باہر آرہا تھا کہ جنابِ امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالب تشریف لے آئے۔ جنابِ امیر نے فرمایا: اس بچے کو مسجد میں واپس لے کرآؤ، اس کا جو بھی معاملہ ہے اس کا میں آج وہ فیصلہ کروں گا جو خداوندِ عالم نےعرش پرکیا ہوگا۔

آپ نے پُوچھا: اس بچے کے والد کی قبر کہاں ہے؟

بتایا گیا کہ مدینے میں فلاں جگہ پر ہے۔

آپ نے فرمایا: چلواس کے باپ کی قبر پر چلتے ہیں۔ جب قبر پر آئے توآپ نے فرمایا: اس قبر کو کھولو اور اس کی پسلی کی ایک ہڈّی نکال کے مجھے دے دو۔

میت کو کھولا گیا اور پسلی کی ایک ہڈّی لائی گئی۔ جنابِ امیر نے ہڈّی کو لیا اور بچے سے فرمایا: اس ہڈّی کو سونگھو، بچے نے ہڈّی کو سونگھا تو اس کی ناک سے خون کا ایک فوّارہ جاری ہوا۔

آپ نے فرمایا یہ میّت اسی کے باپ کی ہے۔ یہ اس کا مال اسے دے دیا جائے۔

حضرت عمر نے کہا: یا اباالحسن! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہڈّی سونگھنے سے خون آجائے اور اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہوکہ یہ مرا ہوا شخص اسی کا باپ ہے؟

مولا نے فرمایا: اگر آپ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تو لاؤ اب یہی ہڈّی دوسروں کو سونگھاؤ۔ جب وہ ہڈّی دوسروں نے سونگھی تو کسی پر کوئی اثر نہ ہوا۔

آپ نے فرمایا: ایک دفعہ پھر یہ ہڈّی اس بچے کو سونگھاؤ۔ جونہی بچے نے ہڈّی کو سونگھا، اسی لمحے اس کے ناک سے پھر خون جاری ہوگیا۔ چنانچہ حضرت عمر نے اس بچے کو اس کے باپ کا تمام ترکہ دے دیا۔

مولا علیؑ نے فرمایا: اے ابا حفص! بخدا میں نے نہ کبھی جھوٹ بولا اور نہ مجھے جھوٹ بتایا گیا۔

حضرت عمر کے دورِ خلافت کا واقعہ ہے کہ دو غلام جو پیروں میں وزنی بیڑیوں کو پہنے ہوئے تھے اور اپنی اپنی بیڑی کے وزن کی مقدار کا اندازہ لگا رہے تھے۔ ایک نے دوسرے سے کہا: اگر اس بیڑی کا وزن فلاں مقدار نہیں ہوگا تو میری بیوی کو تین طلاقیں ہوں گی۔

دوسرے غلام نے بھی یہی کہا۔ اگر اس بیڑی کا وزن اتنا نہ ہوگا جس طرح تو نے کہا ہے تو میری بیوی کو بھی تین طلاقیں ہوں گی۔

ان غلاموں کے آقا سے درخواست کی گئی کہ ان بیڑیوں کو کھول دے تاکہ ان کا وزن کیا جاسکے۔ غلاموں کے مالک نے کہا: اگر میں ان بیڑیوں کو اتاروں تو میری بیوی کو بھی تین طلاقیں ہیں، جب تک کہ میں ان بیڑیوں کے ہم وزن صدقہ و خیرات نہ کروں۔

یہ معاملہ حضرت عمر کے پاس لایا گیا۔ حضرت عمر نے کہا: آقا اور غلام کے لیے بہتر یہی ہے کہ یہ تینوں افراد جائیں اور اپنی اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کریں۔

تینوں افراد پریشان ہوگئے۔ بعد ازاں خلیفہِ دوئم نے ان افراد کو مولا علیؑ کے پاس بھیج دیا۔ جب وہ جنابِ امیر کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے فرمایا: ان قیدیوں کو لاؤ اور ان کے پاؤں میں پڑی زنجیروں کو ایک ڈور سے باندھ دیا جائے، پھر آپ نے ایک بہت بڑا برتن طلب فرمایا۔ اس کے بعد حکم دیا کہ ان غلاموں کے پاؤں بیڑیوں سمیت اس برتن کے درمیان رکھیں اور اس برتن میں اس قدر پانی ڈالیں کہ برتن پُر ہوجائے۔ پھر بیڑیوں کو ڈور سے کھینچ لیا جائے تو پانی نیچے چلا جائے گا۔ برتن میں اس حد تک نشان لگا دیا جائے۔ پھر اس پانی میں لوہے کے ٹکڑے ڈالے جائیں۔ جب پہلی حد اور نشان تک پانی پہنچ جائے تو ان لوہوں کے ٹکڑوں کا وزن کیا جائے تو وہی بیڑیوں کا وزن ہوگا۔

شیخِ طُوسی تہذیب میں فرماتے ہیں: ایک شخص مولا علیؑ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: یا امیر! میں نے قسم کھائی ہے کہ ہاتھی کا وزن تولوں گا۔

جنابِ امیر نے فرمایا: یہ کیسی قسم ہے، تجھے ضرورت ہی کیا تھی اس قسم کی قسم کھانے کی۔ تم نے ایسی چیز کے بارے میں قسم کھائی ہے جس پر تم طاقت ہی نہیں رکھتے ہو۔

اس شخص نے کہا: یا علی! اب تو میں قسم اٹھا چکا ہوں۔ خدا را اس کا کوئی حل کیجیے۔

مولائے کائنات نے فرمایا: اب تم ایسا کرو کہ ہاتھی کو کشتی میں سوار کرو اور دیکھو کہ کشتی کتنی مقدار میں ڈوبی ہے۔ پھر اس کشتی سے ہاتھی کو باہر لاؤ۔ اب کشتی میں وزنی پتھر بھر دو، یہاں تک کہ کشتی پانی میں اتنی ڈوب جائے کہ جتنا ہاتھی کے وزن سے ڈوبی تھی۔ جب کشتی اس حد تک ڈوب جائے تو ان پتھروں کو باہر لا کر ان کا وزن کرو۔ یہی ہاتھی کا وزن ہے۔

حضرت عمر کے دورِ خلافت میں ایک عورت کو حضرت عمر کے پاس لایا گیا جس نے ایک بوڑھے مرد سے شادی کی تھی، سہاگ رات دورانِ مجامعت وہ بوڑھا حالتِ جماع میں شادیِ مرگ کی سی کیفیت میں عورت کے شکم پر مر گیا۔ اس کی منی بھی انزال کے ساتھ باہر آگئی۔ وہ عورت اس سے حاملہ ہوگئی۔ نو ماہ کے بعد اس کے ہاں ایک بیٹا پید ہوا۔

اس بوڑھے مرد کی پہلی بیوی سے بھی اولاد تھی۔ بوڑھے کے بیٹے اس بچے کو حضرت عمر کے پاس لے آئے اور کہا کہ اس عورت نے یہ بچہ زنا سے جنا ہے اور معاملے کی گواہی بھی پیش کردی۔

حضرت عمر نے حکم دیا کہ اس عورت کو سنگسار کر دیا جائے۔ اتنے میں جنابِ امیر تشریف لے آئے، فرمایا: کیا معاملہ ہے؟

حضرت عمر نے تمام معاملہ جنابِ امیر کو بیان کیا۔

جنابِ امیر نے عورت کے گواہوں سے فرمایا: کیا تم لوگ بتا سکتے ہو کہ بوڑھے نے کب اس سے شادی کی تھی اور کس دن وہ اس مرد کے پاس آئی اور کتنی مرتبہ وہ اس سے ہم بستر ہوا۔

انھوں نے کہا: وہ ایک ہی رات اس سے ہم بستر ہوااور حالتِ جماع میں ہی وفات پاگیا۔

مولائے کائنات نے فرمایا: اب اس عورت کو چھوڑ دو اور کل صبح اس کو حاضر کرنا۔ جب دوسری صبح وہ عورت حاضر ہوئی تو اس کا بیٹا بھی اس کے ہمراہ تھا۔

جنابِ امیر نے فرمایا: اس بچے کی عمر کے چند بچے اور لائے جائیں۔ چنانچہ چند بچے اسی عمر کے لائے گئے اور بچوں کو آپس میں کھیلنے کودنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

تمام بچے آپس میں کھیل کود میں مشغول ہوگئے۔

جب وہ سب بچے کھیل کود میں مشغول تھے تو اچانک جنابِ امیر نے انہیں بیٹھ جانے کا حکم دیا۔ سب بچے حکم پاتے ہی بیٹھ گئے۔ پھر آپ نے بچوں کو کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ بچے بڑی پھرتی سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوگئے۔ لیکن اس عورت کا بیٹا دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر بڑی مشکل سے کھڑا ہوا۔ اس سے واضح ہوگیا کہ یہ اس بوڑھے مرد کا ہی بیٹا ہے جو حالتِ جماع میں عورت کے شکم پر ہی دم توڑ گیا تھا۔

مولائے کائنات نے اسے اس کے باپ کی وراثت کا حق دار قرار دیا اور اس کے حصہ کی وراثت اس کو دلائی اور جن لوگوں نے عورت پر زنا کا الزام لگایا تھا ان پر تہمت کی حد جاری کی۔

حضرت عمر نے فیصلہ سننے کے بعد کہا: یا اباالحسن! آپ نے کیسے پہچانا کہ بچہ بوڑھے مرد کا ہے؟

جنابِ امیر نے فرمایا: جب بچوں کو کھڑے ہونے کو کہا گیا تھا تو تمام بچے سرعت کے ساتھ بغیر کسی سہارے کے کھڑے ہوگئے تھے سوائے اس بچے کے۔ کہ جب وہ کھڑا ہوا تھا تو دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر اٹھا تھا۔ چنانچہ میں جان گیا کہ یہ بچہ اسی بوڑھے باپ کا ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan