Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Safdar Hussain Jafri
  4. Masail e Mushkila Ka Hal Aur Hazrat Ali Ki Hazir Jawabi (6)

Masail e Mushkila Ka Hal Aur Hazrat Ali Ki Hazir Jawabi (6)

مسائلِ مشکلہ کا حل اور حضرت علیؑ کی حاضر جوابی (6)

حضرت عمر کے دورِ حکومت میں ایک حاملہ عورت کے بارے میں مشہور ہوا کہ وہ فاسقہ و فاجرہ ہے (بعض روایات میں اس عورت کی طرف موسیقی و غنا سے وابستگی کی نسبت دی گئی ہے) اس عورت کی یہ شہرت حضرت عمر تک پہنچتی ہے، انہوں نے اسے حاضر کرنے کے لیے اپنے کارندے بھیجے۔

حضرت عمر کے نام کی دہشت اور اپنی گرفتاری کا حکم سن کر اس عورت پر خوف کی وجہ سے لرزہ طاری ہوا اوروہ دردِ زہ سے تڑپنے لگی اور اسی اثنا میں اس کا حمل راستے ہی میں ساقط ہوگیا اور اور قبل از وقت پیدا ہونے والا بچہ دنیا میں آنے کے چند لمحوں بعد تھوڑی دیر تڑپ کر مر گیا۔

جب اس واقعہ کی خبر حضرت عمر کو دی گئی تو انہیں افسوس ہوا اور صحابہ سے اس معاملے کے بارے مشورہ کرنے لگے۔ تمام لوگوں نے کہا: آپ پر کوئی جرم نہیں۔ آپ تو اچھائی اور اصلاح کا ارادہ رکھتے تھے، اس معاملے میں آپ بے قصور ہیں۔

اس دوران مولا علی بھی وہاں تشریف فرما تھے اور لوگوں کے مشورے اور آرا کو خاموشی سے سن رہے تھے۔ اتنے میں حضرت عمر آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: یا اباالحسن آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

جنابِ امیرؑ نے فرمایا: اے ابا حفص! آپ نے لوگوں کی باتیں سن لیں جو کچھ یہ کہ چکے ہیں۔

حضرت عمر نے کہا: آپ کیا فرماتے ہیں؟

جنابِ امیرؑ نے وہاں موجود صحابہ سے فرمایا: اگر تم لوگوں نے اجتھاد کے ذریعے یہ مشورہ دیا ہے تو تم واقعے کو دَرک نہیں کر سکے اور اگر اپنی مرضی سے (خلیفہ کی خوشامد کرتے ہوئے) احکامِ خداوندی میں اپنی طرف سے رائے دیتے ہو تو خدا کے نزدیک گنہگار ہو۔

پھر آپ نے حضرت عمر کی طرف رُخ کرکے فرمایا: اور اس بچے کی دیَت آپ کے ذمہ ہے۔ (کیونکہ بچہ کی قبل از وقت ولادت جو کہ موت کا سبب بنی ہے وہ آپ کے ڈرانے کی وجہ سے رُونما ہوئی ہے۔)

حضرت عمر نے کہا: یااباالحسن! ان لوگوں کے درمیان فقط آپ نے ہی مجھے درست فیصلہ سناتے ہوئے میری اصلاح کی ہے، قسم بخدا! میں اس وقت تک یہاں سے نہ اٹھوں گا جب تک کہ دیَت ادا نہ کر دوں۔

ایک عورت حضرت عمر کے پاس آئی اور کہنے لگی: میں مرتکبِ فجور (زنا میں مبتلا) ہوئی ہوں اور میری عفّت باقی نہ رہی، اب آپ مجھ پر حدّ الٰہی جاری کرکے مجھے پاک کر دیجیے۔ حضرت عمر نے اسے سنگسار کرنے کا حکم دے دیا۔

مولا علی بھی اس محفل میں موجود تھے، آپ نے حضرت عمر سے مخاطب ہو کرفرمایا: اس سے پوچھو کہ کس طرح اس گناہ کی مرتکب ہوئی؟

عورت نے کہا: میں لق و دق صحرا میں محوِ سفر تھی اور میرے پاس پانی بلکل ختم ہو چکا تھا، ایک بوند پانی بھی میسر نہ تھا اور پیاس کی شدّت نے مجھے نڈھال کر دیا تھا، میں نے وہاں ایک خیمہ دیکھا، بڑی مشکل سے وہاں تک پہنچی، اس میں ایک آدمی تھا۔ میں نے اس سے پانی کا تقاضا کیا۔ اس نے مجھے پانی دینے سے منع کر دیا اور کہا کہ اسے لذّت پہنچاؤں۔ میں اس کی بات سن کر آگے چل دی۔ لیکن پیاس کی شدّت سے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا اور مجھے لگا کہ اگر کچھ دیر اور پانی نہ ملا تو پیاس سے مر جاؤں گی، لہٰذا مجبور ہو کر دوبارہ اس کے پاس پہنچی۔ اس نے مجھے پانی پلا کر میرے ساتھ فعل انجام دیا اور مجھے آلودہ کر دیا۔

جنابِ امیر نے فرمایا: یہ عورت مجبور تھی اور اس آیہِ شریفہ کی مصداق ہے:

"فمَنَ اضطُرَّ غیرَباغٍ ولا عادٍ فَلا اِثمَ علیہِ اِنَّ اللہَ غفورُ الرَّحیم: پس جو مجبور ہو اور سرکشی اور زیادتی کرنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے بے شک خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے"۔ (سورہ بقرہ: 173)

اور یہ عورت نہ فاسق ہے اور نہ اس نے حریمِ الٰہی سے تجاوز کیا ہے۔ لہٰذا اس پر حدّ الٰہی جاری نہیں ہوگی۔

حضرت عمر نے عورت کو آزاد کر دیا اور کہا: "لَولا علیُ لھلکَ عمر: اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا"۔

حضرت عمر کے پاس ایک مرد اور عورت حاضر ہوئے۔ مرد نے عورت سے کہا تُو زانیہ ہے۔ عورت نے بھی پلٹ کر مرد کو کہا: تُو مجھ سے زیادہ زانی ہے۔

حضرت عمر نے دونوں پر حد جاری کرنے کا حکم دیا۔

اس موقع پر مولا علی موجود تھے فرمایا: جلدی نہ کرو، اس لیے کہ فیصلہ میں جلدی اچھی چیز نہیں، اس طرح فیصلے میں جلدی کرنے سے تمہارا حکم کبھی صحیح نہیں ہو سکے گا۔

حضرت عمر کہنے لگے تو پھر کیا کِیا جائے؟

جنابِ امیر نے فرمایا: مرد کو آزاد کر دو اور عورت پر دو حد جاری کردو۔ اس لیے کہ مرد کا زانی ہونا ثابت نہیں لیکن عورت نے اپنے زناکار ہونے کا اقرار کیا ہے، کیونکہ عورت نے خود یہ اقرار کیا ہے کہ اس نے زنا کیا ہے پس اس پر حدّ زنا جاری کی جائے۔ دوسرا عورت کا جرم یہ ہے کہ وہ شوہر کی طرف زنا کی نسبت دے کر اسے متّھم کر رہی ہے، حالانکہ اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ لہٰذا اس پر حدّ قذف و افترا بھی جاری کی جائے۔

حضرت عمر نے یہ سن کر کہا: اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔

حضرت عمر کے زمانے میں کسی فرد کے ہاں عجیب الخلقت بچہ کی ولادت ہوئی جس کے دو شکم، دوسر، چار ہاتھ اور دو آلہ تناسل جسم کے نصف بالائے حصے میں موجود تھے۔ لیکن نچلے حصے میں تمام لوگوں کی طرح دو ہی ٹانگیں تھیں۔ اس بچے کی ماں حضرت عمر کے پاس آئی اور اپنے شوہر (جو کہ بچے کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد فوت ہوگیا تھا) کی میراث کا مطالبہ کرنے لگی۔

حضرت عمر نے اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اصحابِ رسولﷺ کو جمع کیا لیکن کوئی اس مشکل کے حل کرنے کی راہ نہ نکل سکی تو جنابِ امیرالمومنین سے رجوع کیا گیا۔

جنابِ امیر نے فرمایا: یہ خلقت ایک عجیب حکایت ہے فی الحال اس عورت کو بچے سمیت رہنے دو، اس کی ماں کی حفاظت کرو اور اس کی سرپرستی کے لیے ایک خادم معیّن کر دو جو اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے۔

کچھ ہی عرصے بعد ماں کا انتقال ہوگیا اور بیٹا بڑا ہوگیا یہاں تک کہ اس نے میراث کا مطالبہ کیا۔ امیرالمومنین نے حکم دیا کہ اک خواجہ سرا اس کی خدمت کے لیے معیّن کردو۔ کچھ ہی دنوں بعد ان دو بدنوں میں سے ایک نے ازدواج کا تقاضا کیا، اس بات کی خبر حضرت عمر کو دی گئی۔ حضرت عمرنے مولا علی سے راہنمائی چاہی۔

مولا علی نے فرمایا: اللہ اکبر! اللہ اکبر! خدا کی ذات اس سے منزّہ ہے کہ وہ ایک بھائی کا اپنی بیوی سے جماع کرنا دوسرے پر ظاہر کر دے۔ اس کی شادی کی یہ درخواست موت کی علامت ہے۔ فی الحال اسے چھوڑ دو یہ تین دن میں مر جائے گا اور اسی طرح ہوا وہ (دو بدنوں مین سے اک بدن جس نے ازدواج کا تقاضا کیا تھا) تین دن کے بعد مر گیا۔ مرنے کے بعد حضرت عمر کو خبر دی گئی، انہوں نے اصحاب سے مشورہ کیا۔ بعض نے کہا اس بدنِ زندہ کو تلوارکے ذریعے جدا کردو۔ حضرت عمر نے کہا: تمہاری یہ بات عجیب ہے کہ بدنِ زندہ بھی بدنِ مردہ کی وجہ سے مارا جائے؟

بدنِ زندہ بھی فریاد کرنے لگا کہ باوجود اس کے کہ میں شہادتین و قرآن پڑھتا ہوں پھر بھی تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو؟

حضرت عمر نے کسی کو امیرالمومنین کے پاس بھیجا اور ان سے اس مسئلے کے حل کرنے کی استدعا کی۔

جنابِ امیر نے فرمایا: کہ اس کا حل یہ ہے کہ ابھی اسے غسل و کفن دے کر، اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تاوقتیکہ مردہ جسم خشک ہو جائے پھر اسے قطع کر دینا تاکہ زندہ بدن کو بھی کوئی اذیّت نہ ہونے پائے اور جب مردہ جسم خشک ہوجائے تو اس کا ساتھی جسم بھی تین دن بعد مر جائے گا۔

جو کچھ جنابِ امیرالمومنین نے حکم دیا اس پر عمل کیا گیا اور جو بھی خبر انہوں نے دی تھی وہ رُو نما ہوئی لہٰذا جسم کا دوسرا حصہ بھی تین دن کے بعد مر گیا۔

یہ دیکھ کر حضرت عمر نے کہا: اے پسرِ ابو طالب! بے شک آپ ہی حلّالِ مشکلات اور احکام کو روشن کرنے والے ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari