Masail e Mushkila Ka Hal Aur Hazrat Ali Ki Hazir Jawabi (5)
مسائلِ مشکلہ کا حل اور حضرت علیؑ کی حاضر جوابی (5)
آغوشِ رسالت کے پروردہ، شہرِ مدینۃ العلم کے باب، عالم و معلّمِ علمِ لدنّیﷺ کے علم کے وارث، مفسّرِ قرآن، اشجَعِ عالم، جنابِ سیدہِ کونینؑ کے شوہر، زینتِ منبر، قاتلِ مرحب و عنتر، فاتحِ احد و بدر و حنین و خندق و خیبر، والدِ شبّیر و شبّر، صاحبِ ذوالفقار، حیدرِ کرّار جنابِ امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالبؑ سے محبّت و مودّت ہر مسلمان و صاحبِ ایمان کے ایمان کا جزو ہے اور فرمانِ پیغمبرِ اکرمﷺ کے مطابق واجب و اَوجب ہے کہ ہر مومن مولا علیؑ سے محبت کرتا ہو۔
مولا علیؑ کی ہمہ جہت حیاتِ مقدسہ کے اک پہلو، مسائلِ مشکلہ کا حل اور حضرت علیؑ کی حاضر جوابی، کے عنوان سے اس ناچیز نے سیرتِ امیرالمومنینؑ کی مختلف کتب کا مطالعہ کیا تو اک جہانِ حیرت تھا جو مجھ پہ کھلتا چلا گیا۔ نبی کریم ﷺ کے دورِ مبارک، حضرت ابوبکر، حضرت عمر و حضرت عثمان اور خود مولا علیؑ کے دور کے ان گنت واقعات ہیں جن کو پڑھ کے بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ اک مولا علیؑ کی ذات میں خدا وندِ کریم نے علم و حکمت کا اک قلزم سمو دیا تھا۔
اگرچہ بہت سے واقعات میں نے طوالت اور مشکل ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیے اور صرف آسانی سے سمجھ آجانے والے اور مختصر واقعات لکھنے کی کوشش کی۔ آج اس سلسلے کی اگلی کڑی آپکی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
حضرت علیؑ کے عدل و انصاف کا ایک اور دلچسپ واقعہ بہت مشہور ہے۔ دو شخص سفر پر نکلے ہوئے تھے، کھانا کھانے کے لئے کسی جگہ پر اکٹھّے بیٹھ گئے۔ ایک کے پاس 5 روٹیاں اور دوسرے کے پاس 3 روٹیاں تھیں۔ اسی دوران وہاں سے ایک تیسرے شخص کا گزر ہوا۔ دونوں نے اس تیسرے شخص کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور مل کر روٹیاں کھانے لگے، کھانے کے بعد تیسرا شخص وہاں سے جاتے ہوئے دونوں کو روٹی کی قیمت کے طور پر آٹھ درہم دے گیا۔ اب ان دونوں میں آٹھ درہم کی تقسیم پر جھگڑا شروع ہوگیا۔
جس کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اس کا کہنا تھا کہ روٹی کے حساب سے اس کے پانچ درہم اور دوسرے کے تین درہم بنتے ہیں جبکہ دوسرا جس کے پاس تین روٹیاں تھیں وہ آٹھ درہم برابر تقسیم کرنے پر بضد تھا۔ آخر کار دونوں یہ معاملہ لے کر حضرت علیؑ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ آپ نے ساری بات سننے کے بعد تین روٹی رکھنے والے شخص سے فرمایا "تمہارا ساتھی جو تمہیں دے رہا ہے اسے قبول کرلو، لیکن اس نے کہا کہ نہیں آپ عدل اور انصاف کے مطابق فیصلہ کیجیے۔ مولا نے فرمایا کہ اگر عدل کیا جائے تو تمھارے حصّے میں صرف ایک درہم آتا ہے۔
یہ سن کر وہ شخص حیران ہوگیا اور عرض کیا: "آپ مجھے سمجھا دیں کہ کیسے میرا حق صرف ایک درہم بنتا ہے؟" آپ نے فرمایا کہ "روٹیوں کی کل تعداد آٹھ تھی اور کھانے والے تم تین آدمی تھے، اگر ایک روٹی کے تین ٹکڑے کیے جائیں تو 8 روٹیوں کے کل 24 ٹکڑے بنتے ہیں، جو تینوں میں برابر تقسیم کریں تو ہر ایک کے حصہ میں آٹھ روٹی کے ٹکڑے آتے ہیں، تم نے اپنی 3 روٹیوں کے 9 ٹکڑوں میں سے 8 ٹکڑے کھا لئے اور باقی ایک ٹکڑا بچا جبکہ تمہارے ساتھی نے اپنی 5 روٹیوں کے 15 ٹکڑوں میں سے 8 ٹکڑے کھائے تو باقی 7 ٹکڑے بچے، اس طرح تیسرے شخص نے تمہاری روٹیوں میں سے ایک ٹکڑا کھایا اور تمہارے ساتھی کی روٹیوں میں سے 7 ٹکڑے کھائے لہٰذا انصاف کے مطابق تمھارا ایک درہم اور تمہارے ساتھی کے 7 درہم بنتے ہیں"۔ اس منصفانہ تقسیم پر دونوں متفق ہو گئے اور پانچ روٹی والے نے سات درہم اور تین روٹی والے نے ایک درہم لے لیا۔
اصبغ بن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے سامنے پانچ مرد پیش کیے گئے جنہوں نے زنا کیا تھا چنانچہ آپ نے سب کو رجم کیے جانے کا فیصلہ صادر فرمایا تو مولا علیؑ نے فرمایا کہ یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہے۔ ا س کے بعد مولا نے حضرت عمر کی درخواست پر ایک ایک مرد کو سامنے بلایا اور پہلے کی گردن مارنے، دوسرے کو رجم کرنے، تیسرے کو حد جاری کرنے (یعنی 100 تازیانے لگانے)، چوتھے کو نصف حد (50 تازیانے لگانے) اور پانچویں کو معمولی سزا (چند تازیانے لگانے) کے بعد چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ حضرت عمر نے جب یہ عجیب و منفرد فیصلہ دیکھا تو اس کی وجہ دریافت کی، تو مولا علیؑ نے فرمایا کہ پہلا شخص ذمی تھا جس نے مسلمان عورت سے زنا کیا تھا لہٰذا وہ ذمہِ اسلام سے نکل گیا تھا اس لیے اس کی سزا قتل تھی، دوسرا شادی شدہ زانی تھا لہٰذا اس کی سزا رجم تھی، تیسرا غیر شادی شدہ ہے اسی لیے اس پر حدّ ضرب جاری کی، چوتھا غلام ہے اس لیے اس پر نصف حد ہے، پانچواں کم عقل اور نیم دیوانہ ہے اسی لیے اسے اسے چند تازیانے بطورِ تعزیر لگائے گئے۔
حضرت عمر نے امام کی یہ گفتگو سن کر کہا: اے ابوالحسن! جس امت کے درمیان آپ نہ ہوں خدا مجھے وہاں زندہ نہ رکھے۔
ایک عورت کو حضرت عمر کے پاس لایا گیا جس نے زنا کیا تھا اور وہ عورت حاملہ بھی تھی۔ حضرت عمر نے جب اس سے اقرار لیا تو اس نے اقرار بھی کرلیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس پر حد جاری کی جائے، چنانچہ جب اس عورت کو رجم کرنے کے لیے لے کر جا رہے تھے تو حضرت علیؑ پہنچے، آپ نے پوچھا: "کیا معاملہ ہے؟" اس عورت نے جواب دیا: " اے ابو الحسن! یہ لوگ مجھ کو رجم کرنے کے لیے لے جارہے ہیں"۔ یہ سن کر حضرت علیؑ نے حضرت عمر سے کہا: "اے عمر! اس عورت کے خلاف سزا دینے کی آپ دلیل رکھتے ہیں، لیکن اس کے شکم میں جو بچہ ہے اس کو سزا دینے کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟"
یہ سن کر حضرت عمر نے کہا: کوئی عورت علیؑ جیسا بیٹا پیدا نہیں کر سکتی۔ اگر علیؑ نہ ہوتے تو یقیناً عمر ہلاک ہوجاتا۔
اب مولا علیؑ اس عورت کے ضامن ہوگئے، یہاں تک کہ اس نے ایک بیٹا جنم دیا اور حضرت عمر کے پاس دوبارہ گئی انہوں نے اس کو رجم کیا۔
حضرت عمر کے زمانہِ خلافت میں ایک شخص اپنی بیوی کو دربار میں لایا اور کہنے لگا: میں اور میری بیوی دونوں کالے ہیں لیکن میری بیوی نے گورے بچے کو جنم دیا ہے۔ حضرت عمر نے حاضرین سے کہا اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ عورت کو سنگسار کر دیا جائے کیونکہ اس نے خلافِ فطرت بچے کو جنم دیا، بچہ ماں باپ کی طرح سیاہ ہونا چاہیے تھا۔
حضرت عمر نے عورت کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا۔ اس عورت کو سنگسار کرنے کے لیے جب لے کر جارہے تھے، تو راستے میں ان میاں بیوی نے امیرالمومنین کو دیکھا، تو عورت نے فریاد کی (اب اس عورت کا شوہر بھی پریشان تھا کہ ابھی میری بیوی کو رجم کر دیا جائے گا، اس کو خبر نہ تھی کہ میری اس شکایت کا انجام بیوی کی موت کی صورت میں نکلے گا)۔ مولا نے پوچھا کیا بات ہے؟ اس عورت نے سارا قصہ سناڈالا۔ حضرت نے اس عورت کے شوہر سے پوچھا کہ کیا تم اپنی بیوی کو متّھم کرتے ہو (یعنی اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگاتے ہو)؟ اس نے کہا ہر گز نہیں۔
اپ نے فرمایا: کیا تم نے اپنی بیوی کے مخصوص ایّام میں اس سے ہمبستری کی ہے؟
اس شخص نے کہا: جی ہاں، ایک رات میری خواہش پر اس نے کہا کہ میں حائض ہوں لیکن میں سمجھا کہ شاید وہ سردی کی وجہ سے بہانہ کر رہی ہے لہٰذا میں نے اس سے ہمبستری کی۔
پھر مولا علیؑ نے اس عورت سے مخاطب ہو کر سوال کیا: کیا تمہارے شوہر نے مخصوص ایُام میں تم سے مقاربت کی ہے؟
عورت نے کہا: جی ہاں! میں نے اسے بہت سمجھایا مگر اس نے میری بات کو قبول نہ کیا اور میرے ساتھ حالتِ حیض میں جماع کر دیا۔
جنابِ امیرالمومنین نے فرمایا: جاؤ یہ تمہاری اپنی کارستانی کا نتیجہ ہے۔ یہ بچہ تمہارا ہی ہے، اس کے گورے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایسی حالت میں خونِ حیض نے نطفہ پر غلبہ کر لیا ہے، جب یہ بڑا ہوجائے گا تو کالا ہو جائے گا۔
یہ سن کر حضرت عمر پکار اٹھے: "اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا "۔

