Monday, 07 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Safdar Hussain Jafri
  4. Masail e Mushkila Ka Hal Aur Hazrat Ali Ki Hazir Jawabi (3)

Masail e Mushkila Ka Hal Aur Hazrat Ali Ki Hazir Jawabi (3)

مسائلِ مشکلہ کا حل اور حضرت علیؑ کی حاضر جوابی (3)

ایک دفعہ حضرت علی کی خدمت میں ایک شخص نے سوال کیا: مشرق و مغرب کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟

حضرت علی نے فوراً جواب دیا: سورج کی ایک روز کی مسافت کے برابر۔

ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ اگر کسی شخص کو کسی مکان میں بند کرکے اس کے سارے دروازے بند کر دیے جائیں تو اس کا رزق اس تک کیسے پہنچے گا؟

حضرت علی نے جواب دیا: " جہاں سے اس کی موت آئے گی۔ "

آپ سے پوچھا گیا کہ پانی کا ذائقہ کیا ہے؟

آپ نے فرمایا: " طُعم الحیاۃ" جو زندگی کا ذائقہ ہے۔

پوچھا گیا کہ زمین و آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟

فرمایا: اتنا کہ آنکھ اسے طے کرے اور مظلوم کی دعا وہاں تک پہنچ سکے۔

پوچھا گیا کہ جھوٹ اور سچ میں کتنا فاصلہ ہے؟

فرمایا: "چار انگلیوں کا"(یعنی کان اور آنکھ کا درمیانی فاصلہ) مطلب یہ ہے کہ ہر سنی سنائی بات پر اس وقت تک اعتماد صحیح نہیں ہے جب تک قابلِ اعتماد ذرائع سے اس کا علم و یقین نہ ہو جائے۔

کعب بن اشرف نے کہا کہ قرآن مجید میں ہے" وجنّتُ عَرضھا السمٰوٰتِ والاَرض، جنت کی وسعت آسمان و زمین کے برابر ہے۔ " تو پھر دوزخ کہاں پر ہے؟

فرمایا: جب رات آتی ہے تو دن کہاں ہوتا ہے اور جب دن آتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے؟

کہا، اللہ کے علم میں۔ فرمایا کہ پھر جنت بھی اللہ کے علم میں ہے۔

ایک دفعہ ایک کافر نے عین نمازِ عصر کے لیے تیار ہونے کے وقت آپ سے یہ سوال کیا کہ کون کون سے جانور انڈے دیتے ہیں اور کون کون سے جانور بچے دیتے ہیں؟

عین نماز کے وقت کافر کے اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ اس سوال کا جواب تو انتہائی طویل ہے اور مولا علی تمام جانوروں کی تفصیل بتائیں گے اور نمازِ جماعت کا وقت گزر جائے گا۔ لیکن مولا نے فوراً دو جملوں میں انتہائی مختصر اور جامع جواب عطا فرمایا۔ حضرت علی نے جواب دیا: "وہ جانور جن کے کان اندر ہیں وہ انڈے دیتے ہیں اور جن کے کان باہر ہیں وہ بچے دیتے ہیں۔ "۔۔ سبحان اللہ!

ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ انسان مجبور ہے یا مختار؟

حضرت علی نے فرمایا: اپنی ایک ٹانگ اٹھاؤ، اس نے ایک ٹانگ اٹھا لی۔ پھر آپ نے فرمایا اب دوسری ٹانگ اٹھاؤ۔ اس شخص نے مجبوری طاہر کی۔ آپ نے فرمایا کہ یہی مثال مجبور اور مختار کی ہے۔

خلافتِ حضرت ابوبکرکے زمانے میں عدن کے ساحل پر ایک مسجد تعمیر کی گئی لیکن خود بخود گر گئی، دوبارہ تعمیر کی گئی لیکن پھر منہدم ہوگئی۔

واقعہ کی خبر خلیفہ کو دی گئی، خلیفہ نے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور انہیں قسم دی کہ تم میں جو کوئی بھی اس کی حقیقت سے آگاہ ہے بیان کرے۔ لیکن حاضرین میں سے کوئی جواب نہ آیا، تو امیرالمومنین نے فرمایا: انہیں لکھو کہ سمتِ قبلہ کے دائیں بائیں طرف کو کھودیں۔ دو قبریں ظاہر ہوں گی ان پر لکھا ہے کہ میں "رضویٰ" اور میری بہن "حبی" ہم دونوں دنیا سے جاتے وقت خدا پر ایمان رکھتے تھے اور ہم نے ہر گز شرک نہیں کیا۔ یہ دونوں میّت برہنہ دفن ہوگئی ہیں لہٰذا انہیں غسل و کفن دیں پھر نمازِ میّت پڑھ کر انہیں دفن کریں اس کے بعد مسجد تعمیر کریں تو منہدم نہ ہوگی۔

جب امیرالمومنین کے حکم پر عمل کیا گیا تو مسجد دوبارہ منہدم نہ ہوئی۔

(ابنِ شہرآشوب، مناقبِ آلِ ابی طالب)

اَنَس بن مالک سے روایت کی گئی ہے کہ خلافتِ ابوبکرکے زمانے میں ایک یہودی مدینہ میں آیا جو جانشینِ پیغمبر سے گفتگو کرنا چاہتا تھا، لوگوں نے اسے حضرت ابوبکرکے پاس پہنچا دیا۔ یہودی نے کہا میں چند چیزوں کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں، حضرت ابوبکرنے کہا: جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو۔

یہودی نے کہا: وہ کیا ہے جو خدا نہیں رکھتا، وہ کیا ہے جو خدا کے پاس نہیں اور وہ کیا ہے جسے خدا نہیں جانتا؟

حضرت ابوبکرنے فرمایا کہ یہ کیسے منکرانہ اور زندیقوں والے سوال ہیں، اس موقع پر حضرت عبداللہ ابنِ عباس نے کہا: بہتر ہوگا کہ اس یہودی کو علی ابنِ ابی طالب کے پاس بھیج دیا جائے تاکہ اپنے سوالات کے جواب حاصل کر سکے۔

یہودی جب مولا علی کی بارگاہ میں پہنچا اور اپنے سوال پیش کیے تو حضرت نے فرمایا: جو خدا نہیں جانتا وہ تمہاری یہ بات ہے جو تم کہتے ہو کہ حضرت عزیر خدا کے پسر ہیں، خدا اپنے لیے کسی فرزند کو نہیں جانتا۔ جو چیز خدا کےپاس نہیں وہ بندوں پر ظلم ہے اور جو چیز وہ نہیں رکھتا وہ شریک ہے۔

یہودی نے یہ جوابات سن کر شہادتین پڑھا اوراسلام قبول کر لیا۔

رسولِ معظمﷺ کی رحلت کے بعد یہودیوں کی ایک جماعت مدینہ آئی اور کہنے لگی:

اصحابِ کہف کے بارے میں قرآن کہتا ہے: "اصحابِ کہف 309 سال غار میں سوئے ہیں "(سورہ کہف ایت 25)، جبکہ تورات میں ان کے خواب کی مدت 300 سال بیان کی گئی ہے، یہ دونوں باتیں باہم مخالف ہیں۔

یہودیوں کے اس اشکال و اعتراض کے سامنے خلیفہِ اوّل بلکہ تمام صحابہ خاموش ہوگئے اور کوئی جواب نہ دے سکا۔

بلآخر حلّالِ مشکلات حضرت علی ابنِ ابی طالب کے دامن سے توسُل کیا۔

امام نے فرمایا: اس میں بلکل اختلاف و تضاد نہیں ہے، کیونکہ تاریخی اعتبار سے یہودیوں کے نزدیک شمسی سال معتبر ہے اور عرب کے نزدیک قمری سال ہے۔

توریت عبرانی زبان میں نازل ہوئی ہے جبکہ قرآن عربی زبان میں، لہٰذا 300 سال شمسی اور 309 سال قمری ہیں (کیونکہ شمسی سال 365 دن اور قمری سال 354 دن کا ہوتا ہے، ہر سال میں 11 دن اور 6 ساعتوں کا فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا33 سال شمسی، 34 سال قمری کے برابر ہوتے ہیں، اسی لیے 300 سال شمسی 309 سال قمری کے برابر ہوتے ہیں)

جنابِ ابنِ عباس نقل کرتے ہیں کہ: ایک دیوانی عورت جو زنا کی مرتکب ہوگئی تھی اسے حضرت عمر کے سامنے پیش کیا گیا۔ انہوں نے اپنے ارد گرد والوں سے مشورہ کرکے اسے سنگسار کرنے کا ارادہ کیا۔

اتُفاق سے امیرالمومنین کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ نے اس عورت کے بارے میں سوال کیا۔

کارکنان نے بتایا کہ یہ فلاں قبیلہ کی پاگل عورت ہے اور حضرت عمر نے زنا کی وجہ سے اسے سنگسار کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔

اس کے بعد امیرالمومنین حضرت عمر کے پاس آئے اور فرمایا: کیا آپ نے پیغمبرِ اکرمﷺ سے نہیں سناتین گروہ سے تکلیف اٹھا لی گئی ہے اور ان پر حد جاری نہیں ہوگی۔

اوّل: "بچہ" بالغ ہونے تک۔

دوم: خوابیدہ انسان جب تک بیدار نہ ہو۔

سوّم: دیوانہ جب تک ٹھیک نہ ہو جائے۔

اور چونکہ یہ عورت بھی دیوانی ہے لہٰذا اس پر حدّ الٰہی جاری نہیں ہوگی۔

حجرت عمر نے امیرالمومنین کی راہنمائی قبول کرتے ہوئے اس عورت کو آزاد کر دیا اور کہا: "اگر علی نہ ہوتے تو یقیناً عمر ہلاک ہوجاتا۔ "

پیغمبرِ اکرمﷺ کے صحابی جنابِ ابو سعید خدری سے نقل کیا گیا ہے کہ: حضرت عمر کے دور میں ایک سال ہم حجّ بیت اللہ سے مشرّف ہوئے۔ حضرت عمر طوافِ کعبہ کرتے ہوئے جب حجرِ اسود کے قریب آئے تو حجرِ اسود کی طرف رُخ کرکے کہنے لگے: " میں جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے نہ نفع پہنا سکتا ہے نہ نقصان وضرر دور کر سکتا ہے۔ اگر میں رسولِ خدا کو تجھے بوسہ کرتے ہوئے نہ دیکھتا تو ہر گز میں بھی تجھے بوسہ نہ کرتا۔ "

امیرالمومنین وہاں موجود تھے، حضرت عمر کی یہ بات سن کر آپ نے فرمایا: یہ حجرِ اسود نفع بھی پہنچاتا ہے اور دفعِ ضرر بھی کرتا ہے۔ اگر آپ آیاتِ قرآنی کے اَسرار اور ان کی تاویل سے واقف ہوتے تو(ہر گز یہ بات نہ کرتے)آپ دیکھتے کہ میری بات بلکل صحیح ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا: " یعنی ہم نے یہ اَخذِ عھد اور اپنی ربوبیت کی گواہی اس لیے لی تا کہ تم یہ عذر پیش نہ کر سکو کہ ہم تو غافل تھے"(سورہ اعراف آیت173)

اس آیت کی رُو سے انسانوں نے خدا کی اُلُوہیّت اور اپنی بندگی کا اقرار کیا ہےا ور یہ حجرِ اسود ہی اس عہد و پیمان پر شاہد ہے۔ یہ شہادت دے گا اورقیامت میں محشور ہوگا۔ اس کی زبان اور آنکھیں ہیں اور یہ توحید کے وفاداروں کی گواہی دے گا۔ اس بنا پر، حجرِ اسود اس قرآن میں امینِ خداوند ہے۔

حضرت عمر نے یہ بات سن کر کہا: اے ابوالحسن! اگر آپ نہ ہوں تو خداوند مجھے زندہ نہ رکھے۔

Check Also

Punjab Ki Awam Aur Hukumran Tabqa e Ashrafiya

By Muhammad Aamir Hussaini