Majboor Ya Ghayoor Qaum, Faisla Aap Ka
مجبور یا غیور قوم، فیصلہ آپکا

ہم نے اکثر لو گوں کو کہتے سنا ہے کہ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتی! پر کیا یہ واقعی سچ ہے یا بس کہنے کی حد تک ہم نے اپنے ضمیر کو دلاسہ دے رکھا ہے۔ اس کھوکھلے معاشرے پر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ کتنی ہی بیٹیوں کو بوجھ سمجھ کر اتارنے والوں کی ایک بھیڑ ہے۔ پر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جسے بوجھ سمجھ کر اتارا جاتا ہے اسی پر سارے خاندان کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ بظاہر تو اسے بوجھ سمجھا جاتاہے۔ لیکن حقیقتاً اس ایک جان نے ہر شے کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہوتا ہے۔
کمال ہے نہ جب علم حاصل کرنا مرد و عورت دونوں پر فرض ہے تو مردوں کے لیے وہی فرض پورا کرنے پر خوشی اور نہ کرنے پر قسمت کا رونا رو کر چپ ہو جایا جاتا ہے۔ مگر وہیں اس عورت کو اس فرض کی تکمیل کے لئے ہزاروں سے اجازت کے بعد بھی یہ احسان جتانا کہ ہم نے اسے پڑھنے دیا۔ یہ حق تو اللہ تعالی نے عورت کو دیا ہے تو اس ایک حق کو پانے کی کیوں اتنی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ یوں تو کہتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر انسان با شعور ہو جاتاہے۔ مگر افسوس! کہ میرا معاشرہ آج اس جگہ کھڑا ہے جہاں پڑھی لکھی لڑکی کو اپنا جائز حق بھی چھوڑنا پڑتا ہے کہ کہیں الزام اس کے پڑھے لکھے ہونے پر نہ آ جائے۔
اب تک کے مشاہدے میں مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ موجودہ دور کی ان پڑھ عورت تو اپنے مطالبات پیش کرسکتی ہے۔ مانے جانا یا نہیں یہ کہانی الگ! مگر پڑھی لکھی خواتین کو مطالبہ کرنے کا بھی حق نہیں۔ اگر وہ مزید پڑھنے کا مطالبہ کرے تو وہ ضدی، ہٹ دھرم اور بگڑیل ہے اور یہ خوبیاں اس نے پڑھائی سے سیکھی ہیں۔ اگر وہ اپنی شادی کے متعلق بات کرے اور اپنی رائے دے تو وہ بے شرم اور بے حیا ہے کیونکہ پڑھ لکھ کر ہی اس کی زبان چل رہی ہے۔
دوسری طرف اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مائکے کا بھی بوجھ اٹھائے اور سسرال کا بھی۔ جی ہاں! بوجھ۔ کبھی بھائی کی غیرت کا بوجھ، تو کبھی بھابھی کی نفرت کا، کبھی ماں باپ کے حساس رویوں کا تو کبھی رشتہ داروں کی تلخ مزاجی کا، کبھی شوہر کی عزت نفس کا بوجھ تو کبھی سسرال کی عزت و حرمت کا اور اگر وہ یہ سب بوجھ اٹھا کے چپ چاپ چلتی رہے اف بھی نہ کرے تو وہ ایک اچھی بیٹی ہے، اچھی بیوی اچھی بہوہے۔ مگر جہاں اس نے اپنے عقل و شعور سے کام لینا شروع کیا وہی اس پر بے لگام ہٹ دھرم، ضدی کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے کوئی اس سے بدتمیزی کرے تو اس کی غلطی کہ وہ باہر کیوں گئی۔ گھر میں آ کر کوئی بات کہہ دے تو اسکی غلطی کہ گھر میں اس نے اونچا سانس ہی کیوں لیا کہ اسکی موجودگی کا احساس ہوتا۔ بھائی بدتمیزی کرے تو اس کی غلطی کہ پڑھ لکھ کر بھائی کے سامنے بولنے کی جرات کیوں کی، شوہر بدمزاج ہو تو اس کی غلطی کہ پڑھی لکھی ہونے کے سبب شوہر احساس کمتری میں مبتلا ہے۔
کوئی مسئلہ، کوئی پریشانی، جہاں کہیں بھی کسی بھی معاملے میں اسکا ذکر ہو تو غلط یا صحیح کا فیصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا بس حل ایک ہے اس بوجھ کو اتارنا اور اپنی جھوٹی شان کو قائم رکھنا اور اگر اس بوجھ کو اتارنے میں کوئی چرسی، بھنگی، ڈاکو بھی ان کی مدد کر سکتا ہو تو سر آنکھوں پر اور اس بوجھ پر ایک اور بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ جی ہاں! اس مدد گار کو راہ راست پر لانے کا۔ اگرتو ایسا کرے تو بہت اچھا! نہ کر پائے تو اسکی قسمت اور پھر ساری زندگی کے لئے ایک اور بوجھ، کہ شادی کے بعد بھی ہم پر ہی کیوں منحصر ہےشوہر کی ذمہ داری ہے۔ وہ چرسی ہے، بھنگی ہے جو بھی ہے۔ مجازی خدا ہے تو خدا کے رہتے کسی اور سے دست سوال کرنا تو شرک ہوا نہ۔
سوال یہ ہے کہ اگر وہ خود بوجھ ہے تو کیوں یہ سارے بوجھ اس پر لادے جاتے ہیں۔ توجہ طلب بات یہ ہے اگر اس نے واقعی خود کو بوجھ سمجھ لیا اور یہ سارے بوجھ اتار دیے تو معاشرہ کدھر جائے گا۔ خود کو دھرتی کا بوجھ سمجھنے کے بعد کوئی ماں صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں کرے گی۔ کوئی ماں، کوئی بیوی اپنا کلیجہ بڑا کرکے اپنے پیاروں کو سرحدوں کی حفاظت کے لیے کبھی نہ بھیجے گی۔ مجبور مائیں غیور بیٹے کبھی پیدا نہیں کر سکتی مجبور مائیں صرف بزدل و بےبس قوم کو پروان چڑھائیں گی اور یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے اور فیصلہ کی گھڑی بھی، کہ ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو مجبور بنانا ہے یا غیور۔ فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

