Iqra, Aik Paigham
اقرا، ایک پیغام

گزشتہ دنوں کچھ نوجوانوں سے بحث چھڑ گئی کہ آج کے دور میں کامیاب کون ہے؟ پیسے والاکون ہے؟ بہتر زندگی کون گزاررہا ہے؟ پڑھا لکھا شخص یا ان پڑھ۔
ان کا موقف تھا کہ ان پڑھ شخص بہتر زندگی گزار رہا ہے۔ زیادہ پیسے کما رہا ہے لہذا پڑھائی لکھائی میں کچھ نہیں رکھا۔ بات یوں ہی ختم نہ ہوئی بلکہ بولا گیا کہ آج کے نوجوان جو اپنی ساری زندگی وقف کرکے گریجوایشن کرتے ہیں وہ بھی ملازمت کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ جبکہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کو دیکھا جائے تو نامور بزنس مین مارک زکر برگ اور بل گیٹس دونوں کو ہی اپنی یونیورسٹی سے نکال دیکھا گیا تھا کہ وہ کسی قابل نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ہی آج اپنے دور کے کامیاب ترین انسان ہیں اور جب وہ لوگ پڑھائی چھوڑ کر کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تو ہم یہ خواری کیوں برداشت کریں۔ ان سب مثالوں کے بعد گریجوایشن کرنے والے ہزاروں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی طعنہ زنی کی گئی کہ میں نے کیا کر لیا ہے پڑھ لکھ کر، مشکل سے بنیادی ضروریات ہی توپوری کر پا رہی ہوں۔۔ یہ پڑھائی!
اس گروہ کو یہ بات سمجھانا کہ علم کی کیا قیمت ہے شاید وقت برباد کرنا تھا کیونکہ انکو ان کی جہالت نےان لوگوں میں شامل کر دیا تھا جن کے دلوں پر مہریں ثبت ہو چکیں ہیں۔ بحثیت قوم، ہمارا المیہ ہےکہ ہم سکے کا صرف ایک پہلو دیکھتے ہیں اور وہ بھی وہ جو ہمیں پسند آرہا ہو، یا وہ جو ہماری تن آسانی کی سوچ پر مہر لگا کر ہمارے ضمیر کو سلائے رکھے۔ لیکن یہ تحریر ان لوگوں کے لیے ہے جن کے دلوں میں ابھی بھی علم کی شمع روشن ہےجسے جلائے رکھنے کے لیے وہ دن رات لوگوں کی طعنہ زنی کو برداشت کرتےہیں۔ کبھی ہمت ہارنے لگتے ہیں تو اسی علم کے سہارےپھر اٹھ کھڑا ہونے کا حوصلہ کرتےہیں۔ لیکن اگر ہم نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی عادت نہ اپنائی تو شاید وہ شمع روشن نہ رہ سکے۔
جی ہاں! تصویر کا دوسرا رخ۔۔ یہ بات بلکل بجا ہے کہ مارک زکربرگ اور بل گیٹس جیسے نوجوانوں نے ثابت کیا کہ اگر آپ میں قابلیت ہے تو آپ کسی ادارےکے محتاج نہیں۔ لیکن رکئے۔۔ ذرا سوچیے۔۔ کونسا ادارہ؟ ہاروڈ یونیورسٹی جی ہاں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک اوریہاں سے سے ہی مذکورہ بالا افراد کو نکالا گیا۔ تو کیا جو لوگ میرٹ پر ہاورڈ یونیورسٹی میں پہنچے کیا وہ لوگ ان پڑھ ہیں؟ ہاں یہ الگ بات ہے ان کے نظریات انکی جدت پسندی کے چلتے وہ اس ادارے کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو سکے اور اپنی ڈگری مکمل نہ کر سکے لیکن یہ سوچ رکھنا کہ انہیں ادارے نے نکال دیا اور ہمیں بھی اگر ہمارے سکول، مدارس، کالج، یونیورسٹی سے نکال دیا جائے گا تو یہ ہماری کامیابی کی ضمانت ہوگی۔ وہ لوگ اس یونیورسٹی کے لیے چنے گئے جس میں داخلے کا خواب ہر باشعور انسان لئے پھرتا ہے۔ تو انہیں ان پڑھ تصور کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
بحثیت مسلمان! ہم یہ کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں کہ ہمارے دین کا جو پہلا لفظ ہم تک پہنچایا گیا وہ تھا "اقرا" یعنی کہ پڑھ۔ کیوں اللہ تعالی نے اسی لفظ کو منتخب کیا۔ کیونکہ یہی قوموں کی ترقی کا راز ہے۔ آج جب مسلم نوجوانوں کو پڑھائی سے اس قدر متنفر دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ کیسے یہ اپنے دین کے پیغام کو جھٹلا سکتے ہیں۔ کیسے؟ جس دین کے پیروکاروں کو قبر تک علم حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے اس دین کے پیروکار کیسے حصول علم کےلیے کوشش کرنے والوں کا مذاق اڑا سکتے ہیں۔ کیسےمسلمان ہیں یہ؟ شاید انہیں کے متعلق اقبال نے فرمایا:
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
پر افسوس! کہ ہم نے ڈھونڈنا ہی چھوڑ دیا۔ ہمیں تو بار بار کائنات کے راز جاننے اور غور و فکر کرنے کی تلقین کی گئی تھی مگر ہم نے تو زندگی دوسرے لوگوں کی ذاتی زندگی کے راز جاننے میں وقف کر رکھی ہے۔ نوجوان طبقے سے میری ایک ہی گزارش ہے کہ رکئے، بیٹھیے اور سوچئے۔۔ علم ایک طاقت نہ ہوتی تو کبھی بھی اسلام میں پہلا لفظ اقرا نہ ہوتا۔ یہ ایک پیغام ہے جو ہمیں آئندہ نسلوں تک پہنچانا ہے کہ علم کے حصول کے بنا ترقی کی کوئی منزل طےنہیں کی جا سکتی۔ لیکن پھر بھی اگر یوتھ کو اس بات سے Obsessionہے کہ ہمیں بھی ادارہ نکالے تب ہی تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تو خدارا آپ بھی محنت کے کے ہاروڈ، آکسفورڈ، سٹین فورڈ یونیورسٹیوں میں جگہ بنائیں۔ اس کے بعد اگر وہ آپ کو ڈراپ آوٹ بھی کر دیں تو مضائقہ نہیں۔ لیکن ڈارپ آوٹ ہونا بھی ہے تو ٹاپ کے ادارے سے ہوں۔ یوں گلی، محلہ کے سکول یا مدرسہ سےڈراپ آوٹ ہو کر آپ کامیابی کے خواب کیسے دیکھ سکتےہیں۔ آج جب AI (آرٹیفیشل انٹیلجنس) کا دور ہے تو ہمیں اقرا میں چھپے ہوئے پیغام کو نہ صرف سمجھنا ہے بلکہ اسے عام کرنا ہے تاکہ مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکیں۔

