Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saba Javed
  4. Haqeeqi Ghareeb Kon?

Haqeeqi Ghareeb Kon?

حقیقی غریب کون؟

محترم قاریئن! جب ہم لفظ غریب سنتے ہیں تو فوراً ذہن میں محرومی، کمی اور بے بسی کا تصور ابھرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ حقیقی غریب آخر ہے کون؟ اس کا جواب ہر شخص اپنی عقل، تجربے اور احساسات کے مطابق دیتا ہے۔

علماء کرام فرماتے ہیں کہ غریب وہ ہے جو علم کی دولت سے محروم ہو۔ محبت کرنے والے کہتے ہیں کہ غریب وہ ہے جس کا کوئی مخلص دوست نہ ہو۔ باغبان کے نزدیک غریب وہ ہے جو قدرت کی خوبصورتی اور رعنائیوں سے بے خبر رہے۔ جبکہ مفلس کے ہاں غریبی کا مطلب صرف اور صرف دھن دولت کی کمی ہے۔

یہ تمام آراء اپنی جگہ درست ہیں، مگر ان کی نوعیت انفرادی ہے، اجتماعی نہیں۔ ہر شخص اپنی بصیرت کے مطابق غریبی کے مفہوم کو بیان کرتا ہے۔

دوستو! میری نظر میں غریبی کا مفہوم ان سب سے مختلف ہے۔ میرے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا غریب وہ انسان ہے جس کے پاس اللہ تعالیٰ نے سوچنے سمجھنے کے لیے دماغ تو عطا فرمایا ہے، مگر وہ اپنی انفرادیت کو منوانے کی جرات اور حوصلہ نہیں رکھتا۔

سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ انسان کے پاس کوئی رائے نہ ہو، کوئی نظریہ نہ ہو، کوئی سوچ نہ ہو۔ ایسا شخص زندگی کی دوڑ میں اس چمگادڑ کی مانند ہے جو کبھی پرندوں کے گروہ میں شامل ہو جاتا ہے اور کبھی بھاگ کر جانوروں کے لشکر میں جا چھپتا ہے۔

آج کی نوجوان نسل ایک ایسی غریبی کا شکار دکھائی دیتی ہے جو محض جیب کے خالی ہونے کی نہیں بلکہ سوچ اور ترجیحات کی کمی کا نام ہے۔ ہمارے شاہین، جو کل کے معمار ہیں، اپنی صلاحیتیں اور وقت اس دوڑ میں ضائع کر رہے ہیں جس کا انعام محض وقتی شہرت اور چند لمحاتی واہ واہ ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نوجوان نسل آئندہ آنے والے سیلابوں کی تباہ کاریوں کو روکنے کے طریقوں پر غور کرتی، گرین ہاؤس ایفیکٹ کو کم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کرتی، اوزون لئیر کی ریپیرنگ اور جدید ٹیکنالوجی یعنی مصنوعی ذہانت (AI) کے محفوظ اور تعمیری استعمال کو اپنا موضوع بناتی۔ مگر افسوس! ہماری نوجوان سوچ اس طرف جانے کے بجائے یہ فکر کرتی ہے کہ کس ٹک ٹاکر کو فالو کیا جائے، راتوں رات کیسے وائرل ہوا جائے، کس سیاستدان یا میڈیا پرسن پر تنقید کرکے ویوز بڑھائے جائیں۔

شیئر، لائک اور سبسکرائب کی ایسی دوڑ لگی ہے کہ سب سے آگے رہنے والا ہی کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ بلین ویوز والے کو امیر، ملین والے کو درمیانہ اور ہزار ویوز والے کو بے حیثیت قرار دیا جاتا ہے۔ حقیقت اور جھوٹ کی سرحدیں مٹ چکی ہیں۔ لمحہ بھر میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کر دیا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اتنے "امیر" نہیں ہو سکتے کہ انہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اصلاحی اور تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں؟ علامہ اقبال نے تو اپنے دور میں شاعری کو ایک ذریعہ بنا کر نوجوانوں کے دلوں میں حوصلہ اور مقصدیت کی شمع روشن کی۔ تو کیا آج کے شاہین اپنی رائے کو منفرد اور مثبت انداز میں پیش کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال نہیں کر سکتے؟ یقیناً کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنی سوچ کی غریبی کو ختم کریں، ٹرینڈز کے غلام بننے کے بجائے خود اپنی راہ متعین کریں اور اپنی آواز کو پہچان بنائیں۔

خدا کرے کہ ہماری نوجوان نسل کی یہ ذہنی اور فکری غریبی ختم ہو جائے اور ہر شاہین اپنی پرواز میں فخر اور اعتماد محسوس کرے۔

جیسا کہ شاعرِ مشرق، مصورِ پاکستان، علامہ محمد اقبالؒ کا خواب ہے:

جوانوں کو میری آہِ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے

خُدایا! آرزو میری یہی ہے
میرا نورِ بصیرت عام کر دے

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan