Autism Aik Bimari Ya Qaus e Qaza
آئٹزم ایک بیماری یا قوس قزح

آپ نے اپنے اردگرد ایسے بچے یقیناََ دیکھیں ہوں گے جو باقی بچوں سے مختلف محسوس ہوتے ہوں۔ جن کو بلانے پر وہ کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کرتے اور اپنی زندگی میں مگن رہتے ہیں۔ بے شمار کھلونوں کے ہوتے ہوئے بھی اپنی اس ٹوٹی ہوئی گاڑی سے ہی کھیلنا پسندکرتے ہیں۔ ایسے بچے جو چلتے ہوئے پاؤں زمین پر رکھتے ہوئے کتراتےہیں سارا وزن پنجوں پر ڈالتے ہیں۔ جو سردیوں کے ختم ہونے پر پسندیدہ سویٹر کو گرمی میں بھی پہننے کی ضد کرتے ہیں۔ جو زیادہ ہجوم میں بے چین ہو جاتے ہیں۔ جو سماجی سرگرمیوں سے دور بھاگتے ہو۔ جو نئے دوست بنانے میں مشکل کا شکار ہوں۔ اپنی بات نہ مانے جانے پر ضد کرتے ہوں۔ ماحولیاتی تبدیلی کو قبول نہ کرتے ہوں۔ ان بچوں کو عموماََ ایبنارمل یا بیمار سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔
یہ بچے اور ان کے دماغ قدرت کی ایک ڈائیورسٹی ہے جسے آئٹزم کا نام دیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں آئٹزم کے کیسز میں بہت اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایک طبقہ اسے آج بھی بیماری سمجھتا ہے اور اسکا علاج معالجہ کروانے کے لئے نیم حکیم کے پاس چکر کاٹتا نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو شعور کی وہ منازل طے کر چکا ہے کہ وہ اس تنوع کو قبول کرتا ہے۔ جی ہاں آئٹزم ایک بیماری نہیں بلکہ نیورو ڈیویلپمنٹل ڈائیورسٹی ہے۔
آسان الفاظ میں جیسے بائیو ڈائیورسٹی ہے یعنی جاندار کا مختلف حالات و واقعات میں پایا جانا اسی طرح روح انسانی میں دماغ کی گروتھ میں بھی تنوع (ڈائیورسٹی) ہے۔ جیسا کہ آئٹزم۔ لیکن یہ کہنا قطعا درست نہیں کہ یہ لوگ ذہانت میں کم ہوتے ہیں۔ بلکہ جس طرح نارمل تصور کئے جانے والے لوگوں میں مختلف رویے پائے جاتے ہیں اور ان رویوں کی شدت کسی میں زیادہ اور کسی میں کم ہوتی ہے۔ مزید برآں ان رویہ جات کے پیچھے عناصر بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح آٹسٹک لوگوں میں بھی کچھ رویوں کی شدت باقی لوگوں سے مختلف ہوتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ آٹسٹک لوگوں کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ کچھ بنیادی مسائل کا شکار ہوتےہیں۔ جیسا کہ حساسیت (شور، بہت شدت کی روشنی، لوگوں کا ہجوم) ان لوگوں کو بے چین کر دیتا ہے باقی لوگوں کی طرح اپنے نام کے پکارے جانے پر دل کی دھڑکن تیز نہیں ہوتی یعنی اپنا نام پکارے جانے پر بھی بہت کم ردعمل دیتے ہیں۔ بہت بنیادی کام جیسا کہ ذاتی صفائی، لباس کی تبدیلی، روز مرہ کے چھوٹے موٹے کام میں انہیں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ لیکن آئیے اس سکے کا دوسرا پہلو بھی دیکھتے ہیں۔
ہو سکتا ہے یہ پہلو آپ کے سوچنے کے زاویہ کو تھوڑا تبدیل کر سکے۔ یہ لوگ بلا کے فطین ہوتے ہیں۔ بہت غیر معمولی یادداشت کے مالک مشاہدہ کرنے کی بے مثال صلاحیت ان کو دوسروں سے واقعی منفرد بناتی ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی سےآپ حیران ہوں گے کہ مشہور شخصیات بھی آٹسٹک گزری ہیں۔ جنہوں نے کمال کر دکھایا اور لوگ آج بھی ان کے کئے کام کو سراہتےہیں۔ جن میں قابل ذکر ہیں: آئزک نیوٹن، آئن سٹائن، جی بالکل! جن قوانین نے آپ کی راتوں کی نیندوں کو ختم کرکے شدید بے چینی کے چلتے آپکے لیے فزکس کو محال بنا رکھا ہے۔ وہ قوانین بنانے والے بھی آٹسٹک ہی تھے۔ یعنی کہ آٹسٹک لوگ بیمار نہیں ہوتے مختلف ہوتے ہیں۔ انہیں بہت زیادہ لوگوں میں رہنا، گھومنا، زیادہ گفتگو پسند نہیں ہوتی۔ یہ سماجی طور پر اندرون بین ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی سوچ، استدلال، غور و فکر کی صلاحیت قوس قزح کے رنگوں کی طرح واضح اور روشن ہوتی ہے۔ ان کے دماغ میں کچھ بھی مبہم نہیں ہوتا۔ جس رنگینی کو ہم دنیا میں تلاش کرتے ہیں اس ساری رنگینی کو یہ اپنے اندر سمیٹے ہوتےہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو بیماری سمجھ کر اس کا علاج ڈھونڈنے کے بجائے، فطرت کا تنوع قبول کرتے ہوئے ایسے طریقے بروئے کا رلائے جائیں کہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ اگر ان بے مثال لوگوں کو توجہ اور محبت دی جائے تو یقیناََ یہ لوگ اس افراتفری کے دور میں بھی زندگی کےوہ معنی سمجھا سکتے ہیں، وہ رنگ دکھا سکتے ہیں۔ جو شاید ہم اپنی مصروفیت میں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تو ہمیں اس قوس قزح کواس کے مختلف رنگوں کے ساتھ قبول کرتے ہوئے اپنی دنیا میں رنگ بھرنے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیسے؟ سب سے پہلے تو آگاہی مہم کے ذریعے لوگوں تک اس پیغام کو عام کیا جانا چاہئے۔ اس کے لیے مختلف طریقہ کار کو اپنایا جا سکتا ہے مختلف سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں سیمنار منعقد کروانے سے سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا پر اشتہاری مہم کے ذریعے، تحصیل وضلعی سطح پر والدین کے لئے خصوصی سیمنار کے ذریعے ہم اس پیغام کو عام کر سکتے ہیں۔ آگاہی سے اگلا مرحلہ ہےان لوگوں سے ڈیل کیسے کیا جائے اور ان کو معاشرے کا مفید شہری بننے میں کیسے مدد فراہم کی جائے۔ جیسا کہ آئزک نیوٹن جو کہ پہلا انسان سمجھا جاتا ہےجس میں آئزک کی علامات کا مشاہدہ کیا گیا تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ لوگ معاشرے کے ان رازوں سے پردہ اٹھا سکتےہیں۔ جن پر سوچنے کے لیے ایک عام انسان کا دماغ الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک طبقہ ابھی ایسا ہے جو ان لوگوں سے تعلق کو شرمندگی سمجھتے ہیں۔ ایسے بچوں کو والدین سماجی سرگرمیوں سے دور رکھتے ہیں۔ انہیں گھر کے کسی کونے میں ڈال دیا جاتا ہے کہ یہ باقی لوگوں کی طرح تیز نہیں ہیں۔ ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے اورہر فرد کو اس کے حقوق دلوانےکے لیے کوشش کریں۔
ایسے لوگوں کا حل تنہائی یا سماجی علیحدگی نہیں بلکہ شفقت، پیار اور محبت ہے۔ ایسے بچوں کے لیے حکومتی سطح پر کام ہونا چاہیے۔ جیسا کہ سرکاری آٹزم سنٹرز کا قیام، ایسے بچوں کےلیےمخصوص اساتذہ کی ٹریننگ تا کہ یہ بھی بنیادی حقوق حاصل کرکے ایک نارمل زندگی گزار سکیں اور معاشرے کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکیں۔

